قسط نمبر23
سید ارتضی علی کرمانی
حاجی صاحب نے تو آرام و تحمل سے بات کی بھی اور سنی بھی، مگر نائب مدرس مولانا محمد غازی صاحب جوش میں آگئے اور کتابوں سے مشکل اور علمی سوالات کو اکٹھا کرنے لگے، مگر جب حضرت صاحب سے ملاقات ہوئی تو پھر ان کا ٹھکانا گولڑہ بن گیا۔ مدرسہ صدیقیہ سے استعفیٰ دے کر گولڑہ چلے آئے اور پھر بقیہ یہیں پر زندگانی گزار دی۔
ایک روز حاجی مولانا رحمت اللہ مہاجر مکی سے ملاقات مدرسہ صولتیہ میں ہوئی۔ حاجی صاحب نے آپ سے پوچھا کہ جہاز میں آپ کی مسئلہ ندائے غائبانہ پر کسی سے گفتگو ہوئی تھی؟ آپ نے فرمایا کہ جی ہاں ہوئی تھی۔ پوچھا کہ جو الفاظ آپ نے کہے تھے۔ تو فرمایا کہ بطور معذرت کہتا ہوں کہ آپ کے متعلق میں نے یہ الفاظ کہے تھے۔ حاجی صاحب نے دریافت کیا کہ آپ کا مسلک کیا ہے۔ فرمایا کہ میں جائز سمجھتا ہوں۔ آپ کے دلائل سے حاجی صاحب پر رقت طاری ہوگئی اور کہنے لگے کہ یہ تو علم لدنی ہے۔ ہم سالہا سال سے بخاری شریف کی یہ حدیث درس میں پڑھا رہے ہیں، لیکن ان معانی کی طرف کبھی ذہن نہیں گیا، جو آپ نے استنباط کیے ہیں۔ حضرت حاجی صاحب چونکہ ایک محقق اور انصاف پسند شخصیت تھے، اس لئے شرعی دلیل سے ندائے غائبانہ کو معقول وجہ سمجھ میں آجانے سے فوراً اپنا مسلک درست کرلیا۔ مولانا حاجی رحمت اللہ مہاجر مکی صاحب کے متعلق حضرت صاحب نے ہمیشہ نہایت اچھے الفاظ ادا فرمائے۔
دوران قیام حجاز مقدس ایک روز مولوی محمد غازی کے ہمراہ حضرت صاحب حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے درس میں حاضر ہوئے۔ حاجی صاحبؒ اس وقت مثنوی مولانا روم کا سبق پڑھا رہے تھے۔ دوران درس ایک ایسا شعر آگیا جس میں آرزوئے وصل کی شدت کا اظہار تھا۔ جناب لالہ جی صاحبزادہ غلام معین الدین نے بھی اس کے اپنے سفر نامہ ممالک عربیہ و روم 1949ء میں تصدیق کی ہے۔
ہر کسے کو دور مانداز اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش
ایک شاگرد بول اٹھا کہ مولانا روم تو وحدت لاوجود کے قائل ہیں، جہاں دوئی کا تصور ہی نہیں، پھر یہ وصل کی تمنا کیا مطلب رکھتی ہے۔ حضرت امداد اللہ صاحب نے جواب میں اس کو سمجھانے کی کوشش کی، مگر پوچھنے والے کی تسلی نہ ہو سکی۔ اس نے سوال کو مکرر دریافت کیا۔ اس اثنا میں حضرت صاحبؒ نے فرمایا کہ یہ طالب علم اپنے سوال کا مفہوم پوری طرح ادا نہیں کرسکا، اگر اجازت ہو تو اس کے سوال کا منشا عرض کروں۔ حاجی صاحب نے فرمایا کہ کیا مضائقہ ہے جب حضرت صاحبؒ نے سوال کی وضاحت فرمائی کہ وصل ایک امر اضافی ہے جو دوئی کا متقاضی ہے، حالانکہ و حدت الوجود اس کے منافی ہے تو حاجی صاحبؒ کی طبیعت پر پھر رقت طاری ہوگئی اور کہا کہ اچھا اب اس کا جواب بھی آپ خود ہی بیان فرمائیں۔ حضرت صاحبؒ نے فرمایا کہ
’’وصل کے معنی ہستی موہومہ کو مٹانا ہے، غیریت کی نفی نفس الامر میں ہے اور حقیقت میں محبوب کے بغیر کوئی غیر موجود نہیں، مگر وہم کے غلبہ سے تغائر پیدا ہوگیا ہے اور وہ اس وقت تک باقی رہتا ہے، جب تک فنائے کامل حاصل نہیں ہوتی۔ طلب اور عشق کے تمام منازل میں ایک وہمی غیریت باقی رہتی ہے، اس لئے افراق بھی ہوتا ہے اور وصال کی طلب بھی ہوتی ہے۔
میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں آپ کی تقریر دلپذیر سن کر حاجی صاحب پر وجد و کیف طاری ہوگیا اور کچھ دیر آپ اسی حالت میں رہے۔ جب ذرا طبیعت میں قرار آیا تو اپنے کمرہ خاص میں گئے اور اپنا سلسلہ چشتیہ صابریہ لاکر حضرت صاحبؒ کو پیش کیا اور کہا کہ اگرچہ آپ کو اس کی حاجت نہیں ہے، مگر میں چاہتا ہوں کہ آپ کی وجہ سے شمالی ہندوستان میں میرے سلسلہ کی بھی ترویج ہو۔حضرت صاحبؒ نے فرمایا کہ آپ کی عنایت کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے طواف کعبہ کی طرف قلبی توجہ نہیں ہوتی، اگر ہوسکے تو اس قدر مہربانی فرمائیں کہ خدا کرے یہ ہو جائے۔ حاجی صاحبؒ نے فرمایا کہ میں تو خود تیس سال سے ایسی ہی کیفیت کا شکار ہوں۔حضرت صاحبؒ فرماتے تھے کہ حجاز مقدس سے واپسی کے بعد ایک مدت تک حاجی صاحب کے عطا کر دہ وظائف میرے پاس محفوظ رہے، بعد ازاں میں نے انہیں دیوان سید محمد سجادہ نشین پاک پتن شریف کے تقاضا پر تلقین کیے۔ اس وقت مجھے حضرت امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے اس عطیہ کی حکمت معلوم ہوئی۔(جاری ہے)
Prev Post
Next Post