حضرت ابن مبارکؒ نے ایک مرتبہ طرطوس سے شام کا سفر کیا… راستے میں آپ نے رقہ کی سرائے میں قیام فرمایا، وہاں آپؒ کی ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی، اس کی نیک طبیعت آپؒ کو پسند آئی، اب آپ جب بھی اس سرائے میں قیام کرتے، اس نوجوان سے ضرور ملاقات کرتے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ وہ نوجوان غائب تھا۔ لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپؒ کو بتایا گیا:
’’اس نے کچھ لوگوں سے دس ہزار درہم قرض لیا تھا، وہ قرض ادا نہ کرسکا تو قرض خواہوں نے اسے جیل بھیجوا دیا۔‘‘
آپ جا کر قرض خواہوں سے ملے، اپنی جیب سے انہیں دس ہزار روپے ادا کیے، ساتھ ہی آپ نے ان سے وعدہ لیا کہ وہ نوجوان کو یہ نہیں بتائیں گے کہ قرض کی رقم کس نے ادا کی ہے۔ اس طرح نوجوان کو رہا کر دیا گیا۔ اس نے اپنے قرض خواہوں سے پوچھا: ’’قرض کی رقم کس نے ادا کی ہے؟‘‘
ان لوگوں نے اسے بتایا: ’’کسی نامعلوم آدمی نے اس کا قرض اتار دیا ہے۔‘‘
وہ بہت حیران ہوا، ساتھ ہی اسے پتا چلا کہ حضرت ابن مبارکؒ شام کی طرف جا رہے ہیں اور ابھی انہیں سفر شروع کیے چند ہی دن ہوئے ہیں… نوجوان کے دل میں ان سے ملاقات کا شوق پیدا ہوگیا، وہ کوشش کرکے اگلی منزل پر جاپہنچا، اس کی ملاقات حضرت ابن مبارکؒ سے ہوئی۔ آپ نے خوشی خوشی اس سے پوچھا: ’’رہائی کیسے ہوئی؟‘‘
اس نے بتایا: ’’کسی نامعلوم آدمی نے میرا قرض اتار دیا ہے۔‘‘
آپ نے اس سے فرمایا: ’’حق تعالیٰ کا شکر ادا کرو، جس نے تمہیں اس مصیبت سے نجات دلائی۔‘‘
حضرت ابن مبارکؒ کی زندگی میں یہ واقعہ چھپا رہا… جب آپؒ وفات پا گئے تو قرض خواہوں نے نوجوان کو ساری بات بتائی، تب جا کر دوسرے لوگوں کو اس بات کا پتا چلا، وہ سب بہت حیران ہوئے کہ کس طرح ایک با عمل عالم نے اپنے شاگرد پر احسان کیا کہ اسے پتا بھی نہ چلنے دیا۔
ایک صاحب نے جوتوں کے ایک ہزار جوڑے تحفے کے طور پر امام ابوحنیفہؒ کی خدمت میں ارسال کیے، اس کے صرف ایک دو دن بعد آپ نے اپنے بیٹے کے لیے بازار سے جوتا خریدتے نظر آئے تو آپؒ کے شاگرد حضرت یوسف بن خالدؒ نے حیران ہوکر پوچھا:
’’ابھی تو آپ کے پاس جوتوں کے ایک ہزار جوڑے آئے ہیں۔‘‘
امام صاحبؒ نے فرمایا: ’’میرا قاعدہ یہی ہے کہ میں تحائف اپنے شاگردوں میں تقسیم کر دیتا ہوں۔‘‘
حضرت امام ابو حنیفہؒ ایک مرتبہ اپنی علمی مجلس میں شرعی قیاس کا ذکر فرما رہے تھے، ایسے میں مسجد کے ایک کونے سے کسی نے چیخ کر کہا:
’’یہ قیاسات چھوڑو! سب سے پہلا قیاس کرنے والا ابلیس تھا۔‘‘
امام صاحبؒ اس کی طرف متوجہ ہوئے پھر فرمایا:
’’تم نے درست بات غلط جگہ استعمال کی۔ ابلیس نے خدا کا حکم رد کرنے کے لیے قیاس کیا تھا، جب کہ ہم خدا تعالیٰ کے شرعی حکم پر عمل کرنے کے لیے ایک مسئلے کو دوسرے مسئلے پر قیاس کر رہے ہیں تاکہ دونوں جگہوں پر حق تعالیٰ کے حکم مطابق عمل کر سکیں، یعنی کہاں یہ اور کہاں وہ۔‘‘
حضرت امام صاحبؒ کی بات سن کر اس شخص نے پھر چیخ کر کہا:
’’میں توبہ کرتا ہوں، خدا تعالی آپ کے دل کو منور کرے، آپ نے میرا دل منور کر دیا۔‘‘
حضرت ابن مبارکؒ نے ایک مرتبہ بیروت کا سفر کیا … یہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے مشہور شاگرد ہیں … بیروت میں ان کی ملاقات حضرت امام اوزاعیؒ سے ہوئی … انہوں نے پوچھا۔
’’کوفے میں وہ کون شخص ہے، جو دین میں نئی نئی باتیں نکالتا ہے اور جس کا نام ابوحنیفہ ہے۔‘‘
حضرت ابن مبارکؒ نے یہ سوال سن کر کچھ جواب نہ دیا اور گھر چلے آئے … دو تین بعد پھر ان کی خدمت میں گئے تو چھ صفحات ساتھ لے گئے، وہ صفحات ان کے سامنے رکھ دیئے، انہوں نے ان کو پڑھنا شروع کیا، سب سے اوپر لکھا تھا۔
’’نعمان بن ثابت نے کہا۔‘‘
وہ اس نام کو دیر تک دیکھتے رہے، پھر پوچھا: ’’یہ نعمان بن ثابت کون بزرگ ہیں۔‘‘
ابن مبارکؒ نے بتایا: ’’عراق کے ایک شخص ہیں، میں ان کی صحبت میں رہا ہوں … یعنی یہ نہ بتایا کہ یہ نام امام ابوحنیفہ کا ہے۔‘‘
اب انہوں نے ان صفحات کا مطالعہ کیا تو پکار اٹھے… ’’بڑے پائے کے بزرگ ہیں۔‘‘
اب حضرت ابن مبارکؒ نے فرمایا: ’’حضرت یہ وہی امام ابوحنیفہؒ ہیں، جنہیں آپ بدعتی کہہ رہے تھے۔‘‘
امام اوزاعیؒ کو فوراً غلطی کا احساس ہوگیا، اس کا بہت افسوس ہوا، جب امام اوزاعیؒ حج کے موقع پر مکہ معظمہ گئے تو امام صاحبؒ سے ملاقات ہوگئی، ان سے انہی مسائل کا ذکر چھڑ گیا، حضرت ابن مبارکؒ بھی وہاں موجود تھے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’حضرت امام ابو حنیفہؒ نے اس خوبی سے تقریر کی کہ امام اوزاعیؒ حیرت زدہ رہ گئے … پھر امام صاحبؒ کے جانے کے بعد انہوں نے کہا۔
’’بلاشبہ میری بدگمانی بلاوجہ تھی، اس پر میں افسوس کرتا ہوں، اس شخص کے کمال نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیا ہے۔‘‘ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post