سدھارتھ شری واستو
بھارتی ریاست اتر پردیش کے ایک دلت نوجوان نے ذات پات کی قدیم ہندو روایات روند کر اونچی ذات کے ہندوئوں کو مشتعل کردیا۔ رتھ میں بیٹھ کر، بینڈ باجے کے ساتھ اپنی بارات ٹھاکروں کے گائوں کے عین درمیان سے گزارنے کیلئے سنجے جاتوئو کو الہ آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ عدالتی حکم پر اسے پولیس کا دستہ فراہم کیا گیا، جو سیکورٹی کیلئے بارات کے ساتھ اس وقت تک رہا، جب تک سنجے اپنی دلہن کو لے کر واپس گھر نہیں پہنچ گیا۔ دوسری جانب ٹھاکروں نے ’’نیچ ذات‘‘ والے نوجوان سے بے عزتی کا بدلہ کا اعلان کر دیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق 250 سے زیادہ باوردی پولیس اہلکاروں کی سیکورٹی میں سنجے کی بارات ٹھاکروں کے گائوں سے گزری تو ’’اونچی ذات‘‘ والوں کے چہرے لال ہوگئے۔ لیکن پولیس پروٹیکشن کی وجہ سے ٹھاکر دانت پیستے رہ گئے اور ’’نچلی ذات‘‘ کا دولہا مسکراتا ہوا بارات گزار کر لے گیا۔ ایک دن کے بعد جب یہ بارات نظام پور سے دلہن بیاہ کر واپس آئی تب بھی ٹھاکروں کے گائوں سے ہی گزری اور ٹھاکر کچھ نہ کر پائے۔ تاہم ٹھاکروں نے دلت دولہا اور اس کے گھر والوں کو دھمکی دی ہے کہ بہت جلد انہیں اس جسارت کا مزا چکھایا جائے گا۔ بھارتی صحافی امیت کھرانا نے بتایا ہے کہ سنجے پر برہمن سماج کافی برہم ہے لیکن دوسری جانب دلتوں میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ کیونکہ کاس گنج اور نظام پور دیہات کے درمیان بسنے والے ٹھاکروں کی ناک کٹ چکی ہے ۔ عینی شاہدین کے مطابق سنجے کی بارات کی حفاظت کیلئے چھوٹے ہتھیاروں اور لاٹھیوں سے مسلح دس عدد لیڈی کانسٹیبل، دس انسپکٹر، بیس سب انسپکٹر، تیس ہیڈ کانسٹبل، ایک سو بیس مسلح پولیس اہلکار اور اتر پردیش آرمڈ کانسٹیبلری کے درجنوں اہلکار ساتھ چل رہے تھے۔ سنجے ایک سجی سجائی بگھی پر سوار تھا جبکہ دو سو سے زیادہ باراتی کاروں میں بیٹھے خوشیاں منا رہے تھے۔ کاس گنج پولیس کے سرکل آفیسر گویندرا پال گوتم نے بتایا ہے کہ انہوں نے بارات کے آگے رکاوٹ بننے والے تیس مسلح ٹھاکروں کو زبردستی گائوں سے ہٹا دیا تھا ورنہ ٹھاکر لوگ خون خرابے کیلئے بالکل تیار بیٹھے تھے۔ واضح رہے کہ سنجے جاتوئو نے اپنی شادی کی تاریخ طے کرکے ٹھاکروں کے گائوں سے بارات گزارنے کی درخواست پولیس کو دی تھی جو رد کردی گئی۔ لیکن سنجے نے ہمت نہیں ہاری اور ٹھاکروں کو پیغام دیا کہ وہ اپنی بارات صرف ایک کار میں نظام پور لے جانا چاہتا ہے اور اس کا آسان ترین روٹ ان کے گائوں ہی سے ہوکر گزرتا ہے۔ لیکن طاقت اور اونچی ذات کے نشے میں دھت ٹھاکروں نے سنجے کو گالیاں دے کر بھگا دیا اور اس کو جوتے بھی رسید کئے جس پر سنجے نے ٹھاکروں کو نیچا دکھانے کا فیصلہ کرلیا اور دل میں ٹھان لی کہ وہ ہر قیمت پر ٹھاکروں کے گائوں سے اپنی بارات بینڈ باجے کے ساتھ لے جاکر دکھائے گا۔ اس مرتبہ دلت نوجوان نے کسی افسر یا ادارے کو عرضی تھمانے کے بجائے سیدھے اپنے وکیل کے ذریعہ سیدھے الٰہ آباد ہائی کورٹ جاکر مقدمہ دائر کردیا اور فریق بنایا ٹھاکروں اور ضلعی ایڈمنسٹریشن کو۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے مقامی وکیل حشمت انصاری نے اس مقدمے کے بارے میں بتایا ہے کہ کورٹ کی جانب سے پولیس اور ڈپٹی کمشنر اور کلکٹر اور ڈی آئی جی سے پوچھا گیا کہ آیا ایک شہری کو جو کسی بھی ذات کا ہے، اس کی بارات گزارنے کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی؟ تو تینوں اداروں کا دعویٰ تھا کہ دلت دولہا کی بارات سماج میں ٹکرائو پیدا کرسکتی ہے۔ اس لئے اس کو بارات بگھی، گھوڑے یا کاروں کے جلوس میں نکالنے سے منع کیا جارہا ہے۔ البتہ سنجے چاہے تو اپنی بارات پیدل اس گائوں سے گزار سکتا ہے۔ لیکن الٰہ آباد ہائی کورٹ نے سنجے کو بارات اپنی مرضی سے نکالنے کیلئے احکامات جار ی کرکے ٹھاکروں کا نشہ اتار دیا۔ عدالتی احکامات پر آئی جی پولیس نے 250 اہلکاروں کو سنجے کی بارات کی حفاظت اور ساتھ جانے اور واپس لانے کیلئے مقرر کردیا جنہوں نے ٹھاکروں کے گائوں کے سامنے سے اپنی بارات گزار کر اونچی ذات والوں کو نیچا دکھا دیا۔
Prev Post