اس نوجوان نے اپنا نام منور اقبال بتایا۔ اس کا تعلق چنیوٹ کے ایک گاؤں سے تھا، وہ اپنے گاؤں میں الیکٹریشن تھا اور مہینے بھر میں اتنا کما لیتا تھا کہ گزر بسر ہو جاتی تھی۔
’’ لیکن مہنگائی میں مسلسل اضافہ کے سبب میرے لیے گھر کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوتا چلا گیا۔ ادھر بھائی صاحب نے دکان کھولی تو انہیں اپنے کسی آدمی کی ضرورت پیش آئی۔ میں نے ملائیشیا جا کر اپنے بھائی کی دکان پر بہت محنت کی۔ دوسری دکانیں آٹھ بجے کھلتی تھیں، جبکہ میں فجر کی نماز پڑھ کر چھ بجے ہی دکان کھول لیتا تھا۔ رات میں بھی دیر تک دکان کھلی رکھتا تھا۔ اس لیے ہمارے ہاں گاہکوں کا اضافہ ہوتا رہا اور میں نے بھائی کو خوب کما کر دیا، لیکن بعد میں ان کی ساؤتھ انڈین بیوی اور اس کے خاندان والوں نے دکانداری میں مداخلت شروع کر دی، جس کا دل چاہتا رقم اپنی جیب میں ڈال کر چل دیتا۔ میں نے اپنے بھائی کو بہت سمجھایا کہ میں اتنی محنت کرتا ہوں، لیکن ماہانہ حساب میں کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا۔ آخرکار بھائی کو اپنی دکان فروخت کرنی پڑی۔ میں واپس پاکستان آگیا۔‘‘
’’ اب کیا ارادہ ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اب میں نے ایک بزنس کا سوچا ہے، وہ کروں گا۔‘‘
’’وہ بزنس ضرور الیکٹرک اور الیکٹرانکس کا ہوگا، جس میں آپ ماہر ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’جی ہاں، اس کام میں مجھے جہاں موقع ملتا تھا، وہاں اس ذریعے سے چار پیسے بنا لیتا تھا، لیکن اب میں ہول سیل ریٹ پر اشیاء خرید کر ریٹیل میں فروخت کروں گا۔‘‘
’’ وہ کیسے؟ کیا آپ اپنی دکان کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟‘‘
’’ نہیں، میں یہ چیزیں سائیکل پر لے جا کر دیہی علاقوں میں فروخت کروں گا، اس میں خاصا فائدہ ہوتا ہے۔ اس کام میں میرا تجربہ بھی ہے، پانچ رنگٹ کی چیز کے آٹھ، نو بلکہ دس رنگٹ بھی مل جاتے ہیں۔‘‘ اس نے بتایا۔
میں اس کی بات سمجھ گیا۔ چلتے پھرتے چیزیں فروخت کرنے کا بزنس ملائیشیا میں برسوں سے جاری ہے، جس طرح ہمارے ملک کے گاؤں گوٹھوں میں سردی کے موسم میں پٹھان خشک میوہ فروخت کرنے آتے تھے۔ ان کے علاوہ مکرانی عورتیں کپڑوں کے تھان اٹھائے گھر گھر پہنچ جاتی تھیں۔ اسی طرح ملائیشیا میں آج تک گلی گلی میں آواز لگا کر گھریلو اشیاء فروخت کی جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ اس کاروبار میں زیادہ تر ہمارے پنجابی اور پٹھان بھائی چھائے ہوئے ہیں، کہیں کہیں سکھ بھی نظر آتے ہیں۔ اب کئی پاکستانی اور انڈین لوگ سوزوکی گاڑیوں میں دیگر سامان کے علاوہ کپڑوں کے تھان، قالین، جائے نماز، برتن وغیرہ بھی رکھ کر فروخت کرتے ہیں۔ ملائیشیا کے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگ، خاص طور پر ملئی اور انڈین تامل شہروں میں آکر بڑی دکانوں سے سستی چیزیں خریدنے کے بجائے ان چلتے پھرتے دکانداروں سے مہنگا سامان خریدتے ہیں۔ ادھار بھی چلتا ہے۔ سو ظاہر ہے اس طرح ہر چیز مزید مہنگی بکتی ہے۔ منور نے بتایا کہ جب وہ پچھلے برس یہاں آیا تھا تو اس نے یہ کاروبار کیا تھا۔
’’مجھے زیادہ دور دیہی علاقوں میں نہیں جانا پڑتا تھا۔‘‘ اس نے بتایا۔ ’’میں وہیں شہر کی بڑی دکانوں سے شیمپو، صابن، عطر، پاؤڈر اور رومال جیسی چیزیں خرید کر گلیوں میں فروخت کرتا تھا۔‘‘
اس نے بتایا کہ وہ ملائیشیا کی تینوں قومی زبانوں ملئی، چینی اور تامل کی گزارے لائق معلومات رکھتا ہے۔ اس لیے وہ تینوں قوموں کے محلوں اور گلیوں میں سامان فروخت کرتا تھا۔
’’انڈین لوگ زیادہ تر دیوتاؤں کی مورتیاں اور اگربتیاں خریدتے تھے، جبکہ بدھ دھرم سے تعلق رکھنے والے گوتم بدھ کی تصویریں اور مورتیاں لیتے تھے۔ تین چار گھنٹے کے دوران میری دس بارہ چیزیں بک جاتی تھیں اور اس طرح مجھے 50 رنگٹ کا فائدہ ہوجاتا تھا۔‘‘
رنگٹ (Riggit) ملائیشیا کی کرنسی کا نام ہے، جسے ملائیشین ڈالر بھی کہتے ہیں۔ آج کل اس رنگٹ کی پاکستانی قیمت 30 روپے ہے، جبکہ اسی کی دہائی میں ہم ملائیشیا میں مقیم تھے تو ان دنوں میں سنگاپور کا ایک رنگٹ پاکستان کے چار روپے کے برابر تھا اور امریکن ڈالر ملائیشیا کے چار رنگٹ کے مساوی تھا۔ آج ہماری روپے کی قدر گرنے کی وجہ سے امریکی ڈالر، پاؤنڈ اور یورو وغیرہ ہمارے لیے انتہائی مہنگا ہوگیا ہے، لیکن ادھر ملائیشیا کی کرنسی مضبوط ہونے کے سبب ان کے لیے امریکن ڈالر خاصا سستا ہوگیا ہے۔ آج کل تین ملئی رنگٹ کے عوض ایک امریکن ڈالر ملتا ہے۔
میں نے منور سے پوچھا کہ جب وہ گزشتہ سال ملائیشیا میں کاروبار کرتا رہا ہے تو پھر وہ اسے چھوڑ کر واپسی کیوں آگیا؟
’’آپ نے اس دوران میں جو کچھ کمایا ہوگا، وہ تو آپ کے آنے جانے کے ٹکٹ ہی پر خرچ ہوگیا ہوگا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’بس سر! اسی بات کا تو رونا ہے۔‘‘ منور نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔ ’’میری بیوی کا اصرار تھا کہ واپس لوٹ آؤں۔ وہ کہتی تھی کہ ہمیں ایسا پیسہ نہیں چاہیے، جس کے لیے اپنی رشتے دار عورتوں کے طعنے سہنے پڑیں۔ اس کا اصرار دن بدن شدت اختیار کرتا چلا گیا کہ میں پردیس میں محنت کرنے کے بجائے واپس آجاؤں، اس نے روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرنے کا عزم ظاہر کیا… بس اس کی ضد تھی کہ میں واپس چلا آؤں…‘‘
منور نے بتایا کہ اس کی بیوی کو رشتے دار اور محلے کی عورتوں نے بہکایا تھا کہ اس کا شوہر وہاں کسی عورت سے شادی کر لے گا… یا ممکن ہے اس نے شادی کر ہی لی ہو۔
’’اس معاملے پر میرے والدین اور اس کے ماں باپ کے درمیان جھگڑے بھی ہوئے، نوبت طلاق تک پہنچ گئی تھی۔ اس لیے مجھے مجبوراً واپس وطن آنا پڑا۔‘‘
’’اب جانے کی اجازت کیسے ملی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بس جناب! تین چار مہینے تو بچائی ہوئی رقم سے گزارہ چلتا رہا۔ اس کے بعد واقعی ’’روکھی سوکھی‘‘ کی نوبت آگئی۔ ہمارا ایک بچہ ہے۔ اس کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ اخراجات میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ آخرکار میں نے بیوی کو سمجھایا کہ اب وہ آخری فیصلہ کر لے۔ ابھی مجھ میں ہمت ہے، پردیس میں جا کر محنت مزدوری کر سکتا ہوں۔ میں اس ملک کے طریقہ کار سے بھی واقف ہوں، اس لیے مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ اگر مزید چند سال گزر گئے تو شاید پردیس نہ جا سکوں۔ اب میری بیوی کے ہوش بھی ٹھکانے پر آچکے تھے۔ اس نے بخوشی مجھے جانے کی اجازت دے دی۔ سو میں اِدھر اُدھر سے قرض لے کر جا تو رہا ہوں، لیکن مجھے یہ خوف بھی ہے کہ میرے پیچھے پھر اسے کوئی بہکانہ دے اور مجھے واپس آنا پڑ جائے۔‘‘
’’خدا سے بہتری کی امید رکھیں۔‘‘ میں نے اس کا حوصلہ بڑھانے کی غرض سے کہا۔ ’’میں بھی آپ کے لیے دعاگو ہوں اور آپ بھی خدا کا نام لے کر سکون سے اپنے کام سے لگ جائیں۔ کیونکہ پردیس اور تنہائی میں چھوٹے چھوٹے مسائل بھی بڑے معلوم ہوتے ہیں اور انسان کو مایوس کر دیتے ہیں، سو آپ اپنی صحت کا خیال رکھیں اور حلال روزی کے لیے جدوجہد کرتے رہیں۔‘‘٭
Prev Post
Next Post