ڈاکٹر صابر حسین خان
جب بظاہر کچھ بھی تبدیل ہوتا دکھائی نہیں دیتا تو سمجھ لینا چاہئے کہ اندر ہی اندر بہت کچھ بدل رہا ہوتا ہے۔ پتہ ہمیں اُس وقت چلتا ہے جب بہت کچھ بدل چکا ہوتا ہے۔ زندگی ایک ڈگر پر روانی اور یکسانیت سے گزر رہی ہوتی ہے، گزرتی چلی جاتی ہے۔ بظاہر کہیں کوئی چیز بدلتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ ایک سے دن، ایک سی راتیں۔ پھر اچانک ایک دن پتہ چلتا ہے کہ سب کچھ بدل چکا ہے۔ کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ نہ ہم خود۔ نہ ہمارے اطراف کے لوگ۔ نہ ہمارے اردگرِد کی چیزیں اور ماحول۔ یہ خاموش تبدیلی ایک دن میں نہیں آتی۔ نہ آنے سے پہلے کوئی شور ہنگامہ ڈالتی ہے۔ نہ بآواز بلند اعلان کرتی ہے۔ نہ جھنجھوڑ کر اُٹھاتی ہے کہ اُٹھو، بیٹھو، جاگو، دیکھو، میں آرہی ہوں۔
ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ مگر راتوں رات بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ پھر پہلے جیسا کچھ باقی نہیں بچتا۔ پھر ہمیں دل سے، یا نہ چاہتے ہوئے بھی تبدیلی کو گلے لگانا پڑتا ہے۔ قبول کرنا پڑتا ہے۔ اپنی زندگی کا حصہ بنانا پڑتا ہے۔ اپنی زندگی کو نئی تبدیلی کے حِساب سے ڈھالنا پڑتا ہے۔
نوکیا 3310 اور نوکیا 1100 کی جگہ سامسنگ C5 اور ہوائی میٹ لائٹ 10 کے 4G والے RAM کے موبائل فون استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ پینا سونک ٹوپ ڈوم ٹی وی سے جدید ترین LED اسکرین کے ٹی وی سیٹ دیوار پر ٹانگنے پڑتے ہیں۔ شیراڈ کی جگو وٹز اور وٹز کی جگہ میرا کی کار چلانی پڑتی ہے۔ چاہنے نہ چاہنے کے باوجود۔
ہر نئی تبدیلی کے ساتھ زندگی یا تو upgrade ہوتی ہے اور یا Degrade۔ ہر دو صورتوں میں پھر زندگی کے رنگ، زندگی کی ماہیت اور معنویت اور زندگی کے زاویے وہ نہیں رہتے جو پہلے ہوتے تھے۔ پھر ہمیں زندگی اور ماحول کے نئے رنگوں، نئے زاویوں کے مطابق اپنی فریکوئنسی کو Tune in کرنا پڑتا ہے۔
اپنی پُرانی عادتوں، پُرانی باتوں کو ترک کرکے نئے جامے پہننے کی مشق کرنی پڑتی ہے۔ ہم میں سے جو لوگ زیادہ ذہین، زیادہ زیرک، زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں وہ کسی بھی نئی بات، نئی تبدیلی کی پہلی دستک پر ہی اپنا پُرانا خول اتار پھینکتے ہیں اور لپک کر نئے خول میں سر ڈال لیتے ہیں۔ مگر ہم میں سے زیادہ تر لوگ میری طرح اتنے زیادہ ذہین، اتنے زیادہ سمجھدار، اتنے زیادہ زیرک نہیں ہوتے۔ ہم آسانی سے اپنی عادتیں، اپنے استعمال کی چیزیں، اپنے اصول، اپنے رویئے، اپنے Goals، اپنے آدرش نہیں بدلتے۔ نہیں بدل پاتے۔ اپنے اپنے خول سے باہر نہیں نکل پاتے۔ ہمارے نزدیک ہر تبدیلی صحیح نہیں ہوتی۔ یہ بات بہت حد تک صحیح بھی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر تبدیلی ہمارے لئے، ہماری زندگی کے لئے بہتر ثابت ہو۔ ضروری نہیں کہ ہر بدلی ہوئی بات، ہر بدلے ہوئے ماحول میں ہمارے لئے سکھ چین اور امن ہو۔ ضروری نہیں کہ ہر نئی شے، ہر نیا اصول ہماری زندگی کو آسان بنا سکے۔
درحقیقت کچھ تبدیلیاں وقت اور حالات کے مد نظر Inevitable ہوتی ہیں اور کچھ تبدیلیاں ہماری پسند اور Choice کے تابع ہوتی ہیں۔ کچھ تبدیلیاں سب کیلئے پسند نا پسند ہر دو صورتوں میں گلے کا ہار بنتی ہیں۔ ہم اُن سے دامن نہیں چُھڑا سکتے۔ جبکہ کچھ تبدیلیاں اختیاری ہوتی ہیں۔ ہمارے پاس Choice ہوتی ہے کہ ہم اُن کو Adopt کریں یا نہ کریں۔
ہر فرد کی بنیادی ضروریات تو بظاہر یکساں ہوتی ہیں۔ لیکن پسند نا پسند کا معیار علیحدہ ہوتا ہے۔ کسی کو کسی خاص برانڈ کی چائے کا ذائقہ اچھا لگتا ہے تو کوئی اور کسی اور کمپنی کی چائے پینا پسند کرتا ہے۔ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی کمپنی بند ہوجاتی ہے یا مخصوص برانڈ یا نام کی پروڈکٹ بنانا بند کردیتی ہے۔ اِس صورت میں تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ پسندیدہ شے ملنا بند ہوجاتی ہے۔ آدمی اپنی پسند کو بدلنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ تبدیلی کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ہماری اپنی پسند کا زاویہ بدل جاتا ہے اور ہم از خود برسوں کی آزمودہ شے کو چھوڑ کر کسی اور برانڈ یا نام کا انتخاب کرلیتے ہیں۔ اِس طرح کی تبدیلی کے پیچھے کئی طرح کی وجوہات شامل ہوسکتی ہیں۔ زیرِ استعمال شے کی کوالٹی میں خرابی، دیگر متبادل شے کی کثیر اشتہاری مہم اور متبادل شے کا دل کو بھا جانا۔
غرضیکہ کوئی بھی وجہ ہمیں اپنی پسند کو بدل ڈالنے کی راہ پر ڈال دیتی ہے۔ لیکن کسی بھی طرح کی بیرونی تبدیلی ہمارے اندر کوئی تبدیلی نہیں لاسکتی۔ بظاہر وقت کے ہر گزرتے لمحے ہماری پسند نا پسند کی طرح ہماری سوچ بھی بدلتی ہے۔ ہمارے نظریات اور فلسفے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اس نوعیت کی بھی کوئی تبدیلی ہماری بنیادی فطرت کو نہیں بدل پاتی۔ ہماری Primary Nature مرتے دم تک نہیں بدلتی۔ حالات اور واقعات سے اُس کی شکل صورت ضرور تبدیل ہوتی رہتی ہے، لیکن اُس کی ماہیت تمام عمر یکساں رہتی ہے۔
ہم اپنے باہر اور اپنے اندر وقتاً فوقتاً ہونے والی تبدیلیوں کو اپنی اصل اور بنیادی فطرت کی عینک سے ہی دیکھتے، سمجھتے، برتتے ہیں اور اختیار کرتے ہیں یا رد کرتے ہیں۔ اُسی کے حساب سے اختیار شدہ تبدیلیوں کو توڑ مڑوڑ کر اپنے استعمال میں لاتے ہیں۔
زندگی بسر کرتے ہوئے جو ایک بہت بڑا مسئلہ ہمیں درپیش رہتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کو تمام عمر اپنی بنیادی فطرت اور اُس کے تقاضوں اور اُس کے تضادات کا عِلم نہیں ہوپاتا۔ ہم دنیا بھر کی باتوں اور فلسفوں کو سمجھ لیتے ہیں۔ بڑے بڑے کارنامے سر انجام دے لیتے ہیں۔ پیچیدہ ترین گھتیوں کو سُلجھالیتے ہیں۔ ایسے ایسے کام کرلیتے ہیں، جن کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم اپنی پیٹھ خود نہیں کھجا سکتے اپنے ہاتھوں سے۔ ہم بِنا آئینہ دیکھے اپنے بال نہیں سنوار سکتے۔ ہم اپنی نفسیات اور شخصیت کے تضادات کی بند گِرہیں خود سے نہیں کھول سکتے۔ ہمیں کہیں نہ کہیں رہنمائی اور مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔
اور جب تک ہم اپنے آپ کو نہیں سمجھ پاتے۔ اپنی فطرت، نفسیات اور شخصیت کی تہہ پرتیں نہیں کھول پاتے۔ اُس وقت تک ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہماری بنیادی اور ابتدائی فطرت کیا ہے اور اُس کے اندر ایسی کو ن سی گِرہ پڑی ہوئی ہے، جو ہمیں بدلنے نہیں دے رہی۔ جو ہمیں آگے بڑھنے نہیں دے رہی۔
اپنے آپ کو بدلنا دُنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ اپنی فطرت کو مثبت صورت ڈھالنا جوئے شیر بہانے سے زیادہ مشکل کام ہے اور جو لوگ ایسا کرلیتے ہیں۔ وہ ہم سب سے آگے نکل جاتے ہیں۔ بہت آگے پہنچ جاتے ہیں۔ ہر مثبت اور تعمیری بات کو اپنے وجود کا حصّہ بنا کر اپنی شخصیت کے اندر سر سبز، گھنا اور ہوادار جنگل بنالیتے ہیں۔ جس میں اترنے کے بعد ہر کوئی اپنی روح کے اندر تازگی اور شگفتگی محسوس کرتا ہے۔ جِس کی چھائوں اور تازہ ہوا ہر کسی کے قلب و ذہن کو سیراب کرتی ہے۔
بحالت مجبوری، ہم جِس تبدیلی سے گزرتے ہیں، اُسے قبول کرنے اور اپنانے اور اپنی شخصیت کا باقاعدہ حصّہ بنانے میں ہمارا سیروں خون بھی جلتا ہے اور ہمیں اپنے دل اور دماغ اور اپنی روح کے حصے بخرے بھی کرنے پڑتے ہیں۔ ہم تا عمر ذہنی اور قلبی سطح پر اِس تبدیلی کو قبول نہیں کرپاتے اور ماضی کے جھرونکوں میں ہمہ وقت خود کو ٹانگے رکھتے ہیں۔
لیکن جو تبدیلی، اختیاری ہوتی ہے۔ جو تبدیلی، دلی ہوتی ہے۔ جو تبدیلی ہمارے وجود کے اندر سے پیدا ہوتی ہے، وہ دائمی ہوتی ہے۔ ہمارے ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ ہماری شخصیت کا حصہ بن کر رہتی ہے۔ ہمارے ساتھ اُٹھتی بیٹھتی، سوتی جاگتی ہے۔ یہ تبدیلی، حقیقی ہوتی ہے اور عام طور پر عارضی ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ اِس تبدیلی کو ہمارے قلب و ذہن نے جنم دیا ہوتا ہے۔ اِس تبدیلی کا بیج ہمارے اندر برسوں پہلے پڑچکا ہوتا ہے اور پھر ایک دِن اچانک خود رو پودے اور پتے نکلنے لگتے ہیں۔ اِس حقیقی تبدیلی سے ہمکنار ہونے کی شرط صِرف ایک ہوتی ہے۔ اور وہ یہ کہ ایک بار بیج بونے کے بعد بار بار ہمارے ذہن میں سوال سر نہ اُٹھائیں اور ہمارے دِل میں شکایتیں پیدا نہ ہوں۔ حقیقی تبدیلی کی پائیداری کی ایک ہی صورت ہوتی ہے۔ نیت کی سچائی، سوچ کی یکسوئی، اور دِل کی پاکیزگی، یہ تِکون (Triangle) جب جب، جِس فرد، جِس قوم نے Adopt کیا، وہ پھر سچی، مثبت اور تعمیری تبدیلی سے مالامال ہوا۔
باقی ساری تبدیلیاں ہوا کے بہائو کے ساتھ، اِدھر اُدھر ہوتی رہتی ہیں۔ مٹی میں رُلتی رہتی ہیں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post