سید ارتضی علی کرمانی
ایک مرتبہ قیام حجاز مقدس کے دوران مولانا محمد غازیؒ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت صاحبؒ میری بے پناہ استدعا سے ازراہ عنایت میرے گھر پر فروکش ہوئے۔ تو میں نے دیکھا کہ آپ کے جسم اطہر پر ایک ہی قمیض تھی۔ جو اس طویل سفر میں مسلسل پہننے سے عرق آلود ہو چکی ہے۔ چنانچہ ایک دن میں نے عرض کیا کہ پرانی قمیض اتار کر بعد از غسل میری نئی قمیض پہن لیجئے گا۔ مگر جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ آپ نے وہی بغیر دھلی ہوئی پرانی قمیض پہن رکھی تھی۔
مجھے شدید دکھ ہوا۔ زیر لب شکوہ کرتا ہوا چل پڑا۔ آپ نے دیکھا تو فرمایا کہ ’’مولوی صاحب واپس آؤ، واپس آؤ‘‘ میں واپس گیا تو فرمانے لگے کہ ’’مولوی صاحب، اگرچہ میرے مسلک میں دوئی شرک ہے۔ مگر میں نے خیال کیا تھا کہ یہ قمیض مولوی صاحب کی ہے۔ اچھا اب آپ کی قمیض پہن لیتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر قمیض زیب تن فرمالی اور اپنی قمیض مجھے مرحمت فرمائی۔ حضرت صاحبؒ کی یہ قمیض انہی کے پاس کافی عرصہ رہی۔ لیکن حضرت صاحبؒ کی وفات کے بعد ان سے لیکر حضرت صاحبؒ کے تبرکات میں شامل کردی گئی۔
چند ہم عصر شخصیات:
حضرت پیر سید مہر علی شاہؒ کے ان چند ہم عصر صاحبان بلند درجہ کا ذکر حاضر ہے، جنہوں نے آپ سے ارادت رکھی یا ملاقات فرمائی۔
وصال 1924ء حضرت دیوان سید محمد سجادہ نشین پاک پتن۔
حضرت دیوان سید محمد سجادہ نشین درگاہ سلطان الزاہدین حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ پاک پتن شریف کی استدعا پر حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب نے سلسلہ چشتیہ صابریہ کے اوراد و ظائف اور ارشاد کی اجازت عطا فرمائی تھی۔ یہ وہی وظائف تھے، جو حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ نے آپ کو عنایت فرمائے تھے۔ سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں وہ پہلے سے ہی اپنے نانا بزرگوار حضرت دیوان اللہ جوایاؒ سے بیعت تھے۔
حضرت صاحبؒ سے عقیدت و الفت بغیر دیدار کے ہی تھی۔ ہوا یوں کہ دیوان اللہ جوایاؒ صاحب جو گدی نشین حضرت بابا فرید گنج شکرؒ تھے، ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ انہوں نے جناب سید محمد کو جو ان کے نواسے تھے، جانشین بنا دیا۔ جب آپ کا انتقال ہوگیا تو دیوان اللہ جوایاؒ کے بار سوخ بھتیجے میاں فتح محمد نے زبردستی گدی پر قبضہ کرلیا۔ دیوان سید محمد کی طرف سے دیوانی دعویٰ دائر ہوا، مگر خارج ہو گیا۔ جب آپ نے اپیل کرنے کی کوشش کی تو آپ کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔
اب دیوان سید محمد ریاست پٹیالہ کے ایک گاؤں میں رہائش پذیر ہوگئے، کیوں کہ یہاں پر لڑائی جھگڑے کا خطرہ بہت بڑھ گیا تھا۔ انہی ایام میں میاں فتح محمد نے خاندان چشتیہ کے تمام مشہورو معروف سجادہ نشینوں سے اس مضمون پر دستخط کروا لیے کہ میاں سید محمد کم عمر ہیں اور پاک پتن شریف جیسی گدی کے لیے میاں فتح محمد ہی موزوں اور مستحق ہیں۔
جب یہ محضر نامہ دستخطوں کے لیے گولڑہ شریف پہنچا تو حضرت پیر صاحبؒ نے دستخط کر نے سے انکار فرما دیا۔ میاں فتح محمد نے حضرت ثانی سیالویؒ صاحب کے ذریعے اصرار کروایا، مگر آپ نے فرمایا کہ آپ کا ارشاد بجا ہے، مگر میرا دل نہیں مانتا اور اس جانب راغب بھی نہیں ہوتا۔
اس روحانی بشارت کی اطلاع کسی طرح حضرت دیوان سید شاہؒ کی والدہ محترمہ کو بھی ہوگئی۔ لہٰذا جب چیف کورٹس میں اپیلیں نامنظور ہوگئیں تو مائی صاحبہ نے اپنے ایک عزیز جو لاہور میں رہائش پذیر تھے، ان کو حضرت صاحبؒ کی خدمت میں دعا کے لیے روانہ کیا کہ آپ بتائیں کہ آئندہ اپیل کی جائے یا نہیں۔ کیوں کہ اس میں بہت اخراجات ہوں گے۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ اگر ہمت ہے تو ضرور کوشش کی جائے۔ میں دعا کروں گا۔
چنانچہ آپ کی دعا کے یقین کے ساتھ مائی صاحبہ نے 18000 روپے قرض لیکر پریوی کونسل لندن میں اپیل دائر کروا دی۔ جہاں حق تعالیٰ کے فضل و کرم سے دیوان سید محمد کے حق میں فیصلہ ہوا اور وہ گدی نشین ہوئے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post