شہزادہ فخرو نے وزیربیگم کے لئے باقاعدہ رشتہ بھجوایا

0

مولانا صہبائی کی اہلیہ ایک پل ٹھہریں، پھر ذرا جھک کر رازدارانہ لہجے میں بولیں۔ ’’اکبری خانم، ایک بات ہے، ذرا دھیان سے سنو‘‘۔
’’جی، کہئے کہئے، میں سن رہی ہوں‘‘۔
صہبائی بی بی نے کچھ اور قریب آکر اور بھی سرگوشی کے لہجے میں کہا۔ ’’چھوٹی کے لیے ایک رشتہ ہماری نظر میں ہے‘‘۔
اکبری خانم سناٹے میں آگئیں۔ وہ دل سے چاہتی تھیں کہ چھوٹی کہیں پار گھاٹ لگ جائے، لیکن وہ تو پٹھے پر ہاتھ ہی نہ رکھنے دیتی تھی۔ اور اس کے لیے رشتہ کہیں باہر سے آئے گا اور مولانا صہبائی کا پائوں درمیان ہوگا۔ یہ تو انہوں نے کبھی خواب میں نہ سوچا تھا۔ لیکن کیسا ہی رشتہ ہو، چھوٹی تو شاید نہ ہی کر دے گی۔ انہیں بہت تردد ہوا کہ کیا جواب دیں۔ وہ کچھ دیر چپ رہ کر مصنوعی جوش و اشتیاق سے بولیں: ’’ارے واہ۔ جو میرے من میں سو بامھن کی پوتھی میں۔ اس سے بڑھ کر کیا نصیب ہوں گے چھوٹی کے کہ آپ اس کا رشتہ لے کر آئیں‘‘۔
’’یہ رشتہ میں نہیں لائی ہوں بہن۔ حویلی سے بات آئی ہے، ہم تو صرف کارندے ہیں‘‘۔
بڑی کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ ’’حویلی سے؟ کس کی حویلی سے پیغام ہے؟ کون لوگ ہیں وہ؟‘‘۔
’’اے بی بی دلی میں ایک ہی تو حویلی ہووے ہے۔ وہ لوگ پیغام نہیں دیتے ہیں، مرضی پچھواتے ہیں پھر باقی باتیں طے ہو جاتی ہیں‘‘۔
’’تو کیا… کیا… ظل الٰہی کے در دولت سے کسی سلاطین زادے یا شہزادے…؟‘‘۔
’’بس یوں ہی سمجھ لو۔ فرق یہ ہے کہ صاحب عالم و عالمیان مرزا فخرو بہادر ولی عہد سوئم تمہاری بہن کے خواہاں ہیں‘‘۔
مرزا فخرو بہادر ولی عہد سوئم! بڑی بیگم کو مدتوں کی بھولی بسری بات یاد آئی۔ ہائے ایک عمر بیت گئی لیکن چھوٹی کے انداز وہی ہیں۔ اس نے مجھ سے کہا تھا، شہزادہ قسمت میں ہو گا تو آئے گا ہی، میں کسی ایسے ویسے کو منہ نہیں لگاتی۔ اور آج وہ بات سچ ہوئی جاتی ہے۔
’’اے بہنا یہ منہ کھولے مجھے کاہے کو تک رہی ہو۔ کچھ منہ سے بولو‘‘۔ صہبائی بی بی کے بھی دل میں ڈر تھا کہ اگر انکار ہو گیا تو ولی عہد سوئم بہادر کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ان کی خفگی الگ مول لینی پڑے گی۔
’’مجھے تو یہ رشتہ دل و جان سے منظور ہے بہن۔ پر چھوٹی کی مرضی معلوم کئے بغیر میں قول نہیں دے سکتی۔ آج کل چھوٹی کا دل ان باتوں میں نہیں ہے۔ آپ جانتی ہیں اس نے بڑے دکھ اٹھائے ہیں‘‘۔
’’اے بہن تو اسے سمجھائو نا کہ اب اس کے سکھ کے دن آگئے۔ قلعے میں ولی عہد سوئم کی بیگم بن کر راج کرے گی۔ اور زمانے کے انقلابوں کا کیا ہے۔ کیا پتہ کل کلاں مرزا فخرو بہادر ہی ولی عہد اول اور پھر اللہ رکھے بادشاہ بن جائیں۔ پھر تو تمہاری بہن ہندوستان کی ملکہ کہلائے گی‘‘۔
’’میں ہر طرح سے تیار ہوں بہن‘‘۔ بڑی بیگم نے کہا۔ ’’میں ابھی سوار ہو کر چھوٹی کے یہاں جائوں گی۔ لیکن ذری اپنے مولوی صاحب سے بھی پوچھ لوں کہ ان کی کیا رائے ہے‘‘۔
’’ان سے بھی پوچھ لیجو‘‘۔ صہبائی بی بی نے جواب دیا۔ ’’لیکن اصل بزرگ تو تم ہو اور اصل معاملہ تو ان بنو کا ہے۔ ان سے کہو اپنا سوجھتا کریں۔ یہ دنیا ہے۔ ایسا اچھا دولہا تو شہزادیوں کو بھی نصیب نہ ہووے‘‘۔
پردہ کرایا گیا اور مولوی محمد نظیر صاحب اندر آئے، اپنی بیوی کے حجرے میں کچھ دیر تک انہوں نے گفت و شنید کی۔ پھر وہ یہ کہتے ہوئے باہر نکلے، ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی: ’’تو ٹھیک ہے بیوی، میں مولانا صہبائی کو تمہارا عندیہ بتائے دیتا ہوں۔ آگے اللہ مالک ہے‘‘۔
’’جی ہاں۔ لیکن آپ مولوی صہبائی جی سے دعا کے لیے کہیں اور خود بھی دعا کریں کہ یہ بیل منڈھے چڑھ جائے‘‘۔
’’انشاء اللہ۔ ہم سب دعا کریں گے۔ تم اطمینان رکھو‘‘۔
مولوی محمد نظیر کے باہر جاتے ہی صہبائی بیوی اٹھ کھڑی ہوئیں اور آنچل پھیلا کر قبلہ رو ہوئیں۔ پھر انہوں نے دعا مانگی: ’’اے اللہ، اپنے حبیب کے صدقے یہ بات پوری ہو جاوے۔ ہماری بات رکھ لی جاوے اور چھوٹی بیگم اس رشتے میں پھولیں پھلیں‘‘۔
بڑی بیگم پر رقت طاری ہوگئی۔ انہوں نے دوپٹے سے آنکھیں خشک کرتے ہوئے آمین کہی اور تھوڑا سا صندل کا برادہ لے کر صہبائی بیوی کی مانگ میں افشاں کی طرح چھڑک دیا۔
’’بہن اللہ آپ کو اس نیکی کا اعلیٰ سے اعلیٰ اجر دے گا۔ میں جب تک جیوں گی آپ کا احسان مانوں گی‘‘۔ ان کی آنکھیں پھر چھلک آئیں۔ ’’آپ لوگوں کے مبارک ہاتھ میری بہن کی نائو کے پتوار بن جائیں گے تو اسے کسی طوفان کا ڈر نہ رہے گا‘‘۔
’’بی بی یہ تو آدمی گری کی بات ہے جو ہم کر رہے ہیں، اس میں احسان کاہے کا؟ بس اللہ سے دعا کرو کہ جلد از جلد یہ کام بخوبی انجام پا جاوے۔ ان دنوں حاسدوں کا زور بہت ہے‘‘۔ پھر ادھر ادھر دیکھ کر وہ جھک کر رازدارانہ لہجے میں بولیں۔ ’’اور دیکھو، نواب زینت محل تک بات بالکل نہ پہنچے‘‘۔
بڑی بیگم نے اسی لہجے میں جواب دیا۔ ’’اے بہن وہ لوگ کہاں اور ہم کہاں۔ یہاں سے ان تک بھلا کون خبر لے جاوے گا…‘‘۔
’’شش! دیوار ہم گوش دارد… اچھا اب میں چلتی ہوں۔ تمہارے مولوی جی بے چارے کب تک ہمارے مولانا کی خاطرداریاں کریں گے‘‘۔
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ پر میں آج ہی سوار ہو کر چھوٹی کے وہاں جائوں گی‘‘۔
’’اچھا تو پھر ایک دو دن میں سب معاملہ طے تمام کر لو۔ نیک کام میں دیر کیسی‘‘۔
’’نہیں کوئی دیر نہ ہونے پاوے گی۔ بس چھوٹی کی مرضی ہونا چاہئے‘‘۔
’’اے وہ تو سب سے ضروری ہے۔ ہم بھی سمجھتے ہیں کہ چھوٹی کا دل بہت دکھا ہوا ہے۔ لیکن بی بی یہ بات تم اسے ضرور ہی خوب سا سمجھائیو کہ اللہ میاں ان کے دن پھیرنا چاہتا ہے، سو وہ کفران نعمت نہ کریں‘‘۔
صہبائی بی بی نے بدن پر چادر لپیٹی، بڑی بیگم کے گلے لگیں اور بندگی کر کے دروازے کی طرف مڑیں۔ ادھر پردے کا پورا انتظام تھا، میاں ہوادار میں سوار ہو چکے تھے، بیوی بھی بہ سہولت پالکی میں بیٹھ کر عازم خانہ ہوئیں۔ اکبری خانم نے شام کے لیے پالکی منگوانے کی ہدایت دے کر مصلیٰ بچھایا اور کچھ وظیفہ پڑھنا شروع کیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More