’’کامیابی کی بنیاد‘‘
ڈاکٹر صابر حسین
نظم و ضبط کے بِنا نہ فرد کامیابی حاصل کر سکتا ہے، نہ قوم ترقی پاسکتی ہے۔ اور ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم نظم و ضبط سے عاری زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔ ہم روٹین کے لگے بندھے کام تو باقاعدگی سے کرلیتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن اِن روٹین کے کاموں کے علاوہ ہمارے روزوشب کسی بھی طرح کے باقاعدہ، باترتیب، منظم پلان و پروگرام سے بہت دور ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس مستقبل کا کوئی واضح منصوبہ نہیں ہوتا۔ زندگی کا کوئی مِشن، کوئی گول نہیں ہوتا اور اگر بھولے سے کوئی منصوبہ، کوئی گول ہمارے دامن میں آبھی گرے تو اُس کو عمل میں ڈھالنے کیلئے، Execute کرنے کیلئے کوئی نقشہ نہیں ہوتا۔ ہم اناڑی پیراکے کی طرح ہاتھ پائوں مارتے رہتے ہیں کہ اِس طرح ہم کنارے لگ جائیں گے۔ مگر جلد یا بدیر تھکن حاوی ہو جاتی ہے اور ہم اپنے نامکمل منصوبوں اور ادھورے کاموں کے بیچوں بیچ ڈوب جاتے ہیں۔ دراصل ہمیں صحیح سوچنے اور صحیح سمت میں سوچنے کی بنیادی تربیت نہیں ملی ہوتی ہے۔ ہماری تعلیم کے کسی بھی مرحلے پر ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ زندگی محض سبق یاد کرنے اور امتحان پاس کرتے رہنے کا نام نہیں۔ زندگی کا اصل امتحان تو تعلیمی اداروں کے امتحان ختم کرلینے کے بعد شروع ہوتا ہے اور ہمارے پاس اُس کی ہی تیاری نہیں ہوتی۔ ہم ڈگریاں لے کر کام کے بازاروں کا چکر لگاتے رہتے ہیں اور ہر انٹرویو میں job description اور salary package پوچھ پوچھ کر، گھروں کو پلٹتے رہتے ہیں۔
ماں باپ کے پاس ہمارے لئے وقت نہیں ہوتا۔ اساتذہ اپنی Economy اور اپنے Scales کو بہتر بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ ہم جھاڑ جھنکار کی صورت بڑے ہوتے رہتے ہیں اور پھر اتنے بڑے ہو جاتے ہیں کہ خود کو عقلِ کُل سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی تمام تر عقل اور سمجھ اور عِلم کے باوجود اپنی زندگی میں نظم و ضبط لانے کا استعمال نہیں سیکھ پاتے۔ نتیجے میں ایک عُمر گزر جاتی ہے اور ہم اپنے اپنے شعبوں میں معمول کے کاموں کے سِوا کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل کرپاتے ۔ کامیابی، جہاں ایک طرف قسمت اور محنت کی مرہونِ منّت ہوتی ہے۔ وہاں دوسری طرف اُسے حاصل کرنے کیلئے Innovation کی ضرورت پڑتی ہے۔ نئے Ideas کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اپنی Imagination کو وقت کی ضرورت کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے۔ پھر کہیں جاکر ہم اپنے اپنے کاموں میں تھوڑی بہت Excellence حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اِن تینوں ’’آئیز‘‘ کو چوتھے آئی میں ڈھالنے کیلئے ہمیں اپنے تمام معاملات اور معمولاتِ زندگی میں نظم وضبط کی ضرورت پڑتی ہے۔ Innovation ہو تو Ideas یا Imagination تینوں کی Implementation کیلئے Infrastructure درکار ہوتا ہے۔ یعنی کہ پانچواں ’’آئی‘‘۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے نوکری، اپنے کام، اپنے کاروبار میں اتنا مصروف ہوتے ہیں تو ہم بِنا کسی مدد، بِنا کسی ابتدائی تربیت، بِنا کسی بنیادی عِلم کے آخر کیسے اتنے سارے ’’آئیز‘‘ کو منہ دے سکتے ہیں۔ ظاہر ہے بظاہر نہیں۔ تو ہم خود کو چھٹے آئی، کے سپرد کرکے روٹین کی زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ اور پھر تمام عُمر ایک ایسے Island میں گزار دیتے ہیں جہاں سے چاروں طرف سمندر ہی سمندر دِکھائی نہیں دیتا ہے اور اُس سمندر کو پار کرنے کا کوئی ذریعہ، کوئی طریقہ دِکھائی نہیں دیتا۔ ہم روٹین کے کاموں میں، روٹین کی زندگی گزار کر قبروں میں جالیٹتے ہیں۔ ہم نے اپنے روز مرّہ کے روٹین کو ہی نظم و ضبط سمجھ لیا ہے اور اِس سمجھ نے ہمیں کولہو کا بیل بنا دیا ہے۔
ہر وہ بات، ہر وہ چیز جو ہماری روٹین سے ہٹ کر ہوتی ہے۔ ہمارے مزاج کو گراں گزرتی ہے اور ہم حتی الامکان اُس نئی بات، اُس نئی چیز سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی چاہتے ہیں کہ ایک لگے بندھے Pattern میں ہمارے شب وروز گزرتے ر ہیں اور کسی بھی طرح کا کوئی نیاپن، کوئی نیا انداز، کوئی نیا رنگ، کوئی نیا خیال، کوئی نیا نظریہ، کوئی نیا کام ہمارےFixed Cycle کو توڑ نہ دے۔
یہ سوچ، یہ طریقہ، زندگی گزارنے کا یہ انداز ہمیں غیر معمولی کامیابیوں سے دور رکھتا ہے۔ درحقیقت ہمارے اندر کا ڈر ہمیں کچھ نیا نہیںکرنے دیتا۔ کچھ نیا نہیں سوچنے دیتا اور اِس ڈر کی جڑیں بھی ہماری اوّلین تعلیم اور تربیت کے جنجال پُورے میں پوشیدہ ہوتی ہیں کہ ہم کوئی نیا کام کیسے سیکھیں گے۔ کوئی بھی نیا کام کیسے کریں گے۔ ہم تو پہلے ہی اپنے کاموں سے تنگ ہیں۔ ہم تو پہلے ہی کاموں کے انبار تلے دبے ہوئے ہیں۔ نیا کام تو ہمارے بوجھ کو اور بڑھا دے گا۔ اِس سوچ کی بنیادی وجہ ہمارے اندر نظم و ضبط کوAdopt اور Applyکرنے کی اہلیت کا نہ ہونا ہوتا ہے۔
ہمارے اندر کا نظم و ضبط اگر Intact اور Integrated ہو توہم بہت اطمینان اور سکون سے نئے کاموں، نئی باتوں، نئی سوچوں کو نہ صرف خوش آمدید کہتے ہیںبلکہ بڑے آرام سے اپنے معمول کے کاموں میں گنجائش نکال کر نئے کاموں کو، نئی باتوں کو Add on کرلیتے ہیں۔ یاد رکھیں ہماری ذہنی قوّت و صلاحیت اُسی وقت بڑھتی اور پروان چڑھتی ہے جب ہم اپنے Neurons کو مستقل مصروف رکھتے ہیں اور مستقل مصروفیت، اُسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے دماغ کو ہمہ وقت کسی بھی نئی بات، کسی نئے کام کو Pick کرنے اور سمجھنے کیلئے چوکس و چوکنا رکھتے ہیں اور روزانہ کی باتوں اور معمول کے کاموں کے ساتھ کچھ نیا دیکھتے، کچھ نیا پڑھتے، کچھ نیا سوچتے ہیں۔ درحقیقت نئے پن کی جستجو اور تگ و دو ہی ہمیں اپنی سوچوں میں نظم و ضبط کی عادت ڈالتی ہے۔ اِسی سے ہم Self editing اور Self Monitoring سیکھتے ہیں۔ اِسی عادت کے استعمال سے پھر ہمارے اندر کا ڈر ہمیں ڈرانے کی بجائے ہمیں کامیابیوں کے حصول کے نئے طریقے سِکھاتا ہے۔ ایک نیا Idea ہمیشہ ایک دوسرے خیال تک لے جاتا ہے۔ اور ہر نیا خیال ہماری پُرانی کمیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کو Highlightکرتا ہے اور ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اُنہیں Rectify کرکے اپنی اصلاح کرسکیں اور اپنی اصلاح کرکے خود کو کامیابی کے اگلے زینے پر چڑھاسکیں۔ لیکن یہ پورا عمل Automatic اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہمیں اوائل عُمر سے ہی Self discipline کی عادت ہو۔ تبھی ہم عُمر کے ہر مقام پر اپنی پُرانی نصابی کتابوں اور پُرانے مشغلوں کے ساتھ ساتھ اپنی پُرانی عادتوں کو Edit کرسکتے ہیں کہ زندگی کے اگلے مرحلے میں ہمیں اپنی کونسی پُرانی چیزوں اور باتوں کے ساتھ کون کونسی نئی باتوں کو ازسرِ نو Reframe اور Refresh کرنا ہے اور کو سی نئی چیزوں کو Adopt کرنا ہے۔
بچوں کو ڈسپلن سکھانا والدین اور اساتذہ کی ذمّہ داری ہوتی ہے۔ لیکن ہم سب اپنی اِس ذمّہ داری کو فراموش کربیٹھے ہیں۔ چونکہ ہم نے خود نظم و ضبط سے عاری بچپن گزارا ہے تو اُ س کی سزا ہم اپنے بچوں کو دے رہے ہیں۔ ہماری ڈیوٹی بس اتنی سی رہ گئی ہے کہ بچوں کو وقت پر اسکول چھوڑ آئیں اور لے آئیں۔ اور پھر اُن کو ٹیوشن پڑھنے روانہ کردیں۔ ہم نے اُن کے ساتھ وقت گزارنا، اُن کو وقت دینا چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے اُن کو کھیل کے میدانوں اور پارکس سے دور کرکے اُن کے ہاتھوں میں موبائل فون تھمادئیے ہیں۔ اسکولز اور کالجز میں دی جانے والی تعلیم کسی بھی طرح بچوں اور نوجوانوں کی شخصیت اور نفسیات کی نشوونما نہیں کررہی۔ ایک زمانہ تھا جب ہر اسکول اور کالج کی تقریباً ہر کھیل کی باضابطہ ٹیم ہوا کرتی تھی اور اب اسکولز اور کالجز، کبوتروں کے ڈربے بن چکے ہیں۔ کھیل کے میدان اور پارکس کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں اور ہم سب لوگوں کا Focus تربیت، شخصیت اور کردار کے اعلیٰ معیارات کے انتخاب کے بجائے گریڈ، عہدے، دولت اور Power کے حصول پر مرتکز ہو چکا ہے۔ ہمارے بچے ہمارے گھروں میں پلنے والے Pets کی طرح پل رہے ہیں۔ اُن کی ہر فرمائش پوری ہورہی ہے۔ لیکن ہر فرمائش کے پورے ہونے سے اُن کی شخصیت اور ذہنی ساخت و سوچ پر جو Dent پڑرہا ہے، اُس پر ہماری نظر نہیں جاتی۔
ہم اپنے بچوں کو نظم و ضبط سکھانے کے بجائے انہیں آوارہ اور وحشی بنا رہے ہیں۔ ڈگری یافتہ، سند یافتہ محض اپنی خواہشات کی تکمیل میں مصروف ایسی نوجوان نسل پیدا کر رہے ہیں، جِس کو نہ دین کا پتہ ہے نہ مذہب کا۔ نہ اخلاقی اقدار کا پاس ہے نہ معاشرتی ذمّہ داریوں کا۔ نہ اپنے فرائض کا احساس ہے نہ کردار اور شخصیت کو نکھارتے رہنے کا خیال۔ زندگی کے ہر زاویے میں نظم اور ضبط سے عاری، خالی اور کھوکھلی شخصیت کیسے اور کیونکر کسی بھی شعبے میں ترقی کر سکتی ہے۔ جب سوچ کا محور محض ذات اور ذاتی خواہشات کا حصول ہو تو تنگ دلی، کنجوسی اور خود غرضی ہمارے ہر فعل، ہر عمل، ہر رویئے سے ٹپکنے لگتی ہے۔ اِس انفرادی سوچ اور رویئے نے پورے معاشرے کو اپنی گِرفت میں لے لیا ہے اور اِس کی بنیاد نظم و ضبط کی عدم موجودگی کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں سے بے چینی اور افراتفری اور بے سکونی کم ہو تو ہمیں اپنے بچپن کی تمام Fixation کو فراموش کرنا پڑے گا۔ Delete کرنا پڑے گا۔ اپنی سوچ کی ہارڈ ڈسک Format کرنی پڑے گی اور پھر سب سے پہلے اپنی موجودہ زندگی میں نظم وضبط پیدا کرکے اُس کی پریکٹس شروع کرنا ہوگی۔ تبھی ہم بچوں اور نوجوانوں میں سیلف ڈسپلن کے بیچ بوسکیں گے۔
٭٭٭٭٭