پاکستان نے گزشتہ روز آئی ایم ایف کی ٹیبل پر ایک بار پھر قرض کی درخواست رکھ دی۔ آئی ایم ایف نے اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ جب کہ موجودہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی موجودہ اقتصادی بدحالی کا سبب چین سے لیا ہوا قرضہ ہے۔ امریکہ نے ایسی بات ابھی نہیں کی۔ دو روز قبل تو یہ مؤقف امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ نے پیش کیا ہے، مگر اس سے قبل امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے یہ بات رواں سال کے ساتویں ماہ کے دوران کی تھی۔ امریکہ کو اس وقت بھی معلوم تھا کہ جب بھی پاکستان سے کوئی حکومت جاتی ہے، تب خزانہ خالی کرکے جاتی ہے۔ اس لیے آنے والے وزیر اعظم کو ملکی امور چلانے کے لیے پھر اس ’’کوئے ملامت‘‘ کی طرف جانا پڑے گا، جس سے بغاوت کی باتیں پاکستان کا ہر سیاستدان تب تک کرتا ہے، جب تک اس کے ہاتھوں میں اقتدار نہیں آتا۔ جب پاکستان میں کسی کو اقتدار ملتا ہے، تب اس کو اقتدار کے ساتھ ساتھ وہ کشکول بھی ملتا ہے، جس کو توڑنے کی باتیں تو سب کرتے رہے ہیں، مگر وہ کشکول پاکستان کے ہر حکمران کے گلے میں لٹکتا رہتا ہے۔
پاکستان جب وجود میں آیا تھا تب بہت غریب تھا، مگر مقروض نہیں تھا۔ پاکستان مقروض کیسے بنا؟ پاکستان کو کس طرح اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد فراہم کرنے کے بجائے اسے اپنا محتاج رکھنے کے لیے عالمی سامراج نے اس کو کس طرح امداد کا عادی بنایا؟ یہ مغربی طاقتیں تھیں، جنہوں نے پاکستان کے غیر مقبول حکمرانوں کی دل کھول کر حمایت کی اور انہیں اپنے ملک کے عوام سے ڈرا کر اپنا وفادار بنانے کی کامیاب کوشش کی۔ ہم کو موجودہ مالیاتی بحران کا جائزہ صرف گزشتہ حکومت کے دور سے نہیں لینا چاہئے۔ ملک کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی ہے کہ دس برس کے دوران لیے گئے قرضوں کی تفصیل پیش کی جائے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دس برس کیوں؟ اگر پاکستان کے قرض کا کیس سمجھنا ہے تو پھر قرض کے پورے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس صورت میں ہمیں پاکستان کی پوری مالیاتی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ’’امداد نے قرضے کی صورت کب اختیار کی؟‘‘ پہلے تو پاکستان قرض کے مرض سے محفوظ تھا۔ ہمارے ملک کو اس موذی مرض میں مبتلا کرنے والے کون ہیں؟ جب تک ہم اپنے ان قومی مجرموں کو بے نقاب نہیں کریں گے تب تک ہم قرض کی زنجیروں سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کر پائیں گے۔
اس دور میں دنیا کا وہ ملک زیادہ طاقتور ہے، جس کے پاس زیادہ سرمایہ ہے۔ مگر تاریخ میں ایسا نہیں تھا۔ تاریخ میں وہ ممالک مضبوط سمجھے جاتے تھے، جن کے پاس زیادہ عسکری قوت ہوا کرتی تھی۔ جن کی جنگجو مہارت دوسروں سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔ اس وقت تلوار کی طاقت سے کمزور قوموں کو فتح کیا جاتا تھا۔ ان کو معاشی طور پر لوٹا جاتا تھا۔ پھر تلوار کی جگہ بندوق نے لے لی اور گزشتہ صدی کے دوران انسانیت کو ایٹمی ہتھیاروں کے تجربے سے گزارا گیا۔ اس حقیقت میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ دنیا کی دونوں بڑی جنگوں کے اصل اسباب اقتصادی تھے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد پیسہ نوآزاد ممالک کے خلاف بہت بڑا ہتھیار بن گیا۔ وہ ہتھیار وقت کے ساتھ زیادہ مہلک ہوتا گیا۔ اب دنیا کی کمزور معاشیات والے ممالک کی آزادی برائے نام ہے۔ ان ممالک کو عالمی سامراج نے قرضوں سے اس طرح جکڑ کر رکھا ہے کہ وہ عالمی سامراج کی اجازت کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے۔ جن ممالک نے اپنی اقتصادیات کو مضبوط نہیں کیا، وہ کہنے کو تو آزاد ہیں، مگر ان کی غلامی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ صورت حال قوموں کے لیے باعث شرم رہی ہے، مگر اب تو یہ حالت زندگی اور موت کی کیفیت بن چکی ہے۔ پاکستان کے لیے قرض کی زنجیروں کو توڑنا کسی کرشمے سے کم نہیں۔
یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ ایک ایٹمی ملک معاشی طور پر اس قدر کمزور ہو کہ اسے اپنی مرضی کی معاشی پالیسیاں بنانے کے بجائے امداد دینے والے سود خور اداروں کے اشاروں پر چلنا پڑتا ہے۔ یہ ہماری حکومتوں کے فیصلے نہیں ہوتے کہ پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔ یہ فیصلہ عالمی مالیاتی ادارے کرتے ہیں کہ کس ادارے سے کتنے ملازم فارغ کیے جائیں اور کس چیز کا دام کتنا رکھا جائے۔ کیا یہ کوئی راز ہے کہ ان عالمی اداروں کے پیچھے دنیا کے سرمائے دار ممالک ہیں۔ یہ آئی ایم ایف اور یہ ورلڈ بینک تو نقاب ہیں۔ ان کے پیچھے مغرب کے سرمائے دار ممالک اپنے مفادات کے ساتھ موجود ہیں۔ وہ ادارے جن کی آفیشل ویب سائٹس پر یہ نعرے لکھے ہوئے ہیں کہ وہ دنیا کے غریب ممالک اور کمزور اقوام کی مدد کرنے کے لیے میدان میں ہیں، وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اگر وہ چاہتے تو آج دنیا اقتصادی طور پر آزاد ہوتی۔ دنیا کے غریب ممالک دن بہ دن اپنی اقتصادی بدحالی کی وجہ سے اپنی آزادی کھوتے جا رہے ہیں۔ اگر عالمی مالیاتی ادارے اس دعویٰ میں سچے ہوتے کہ وہ دنیا کو معاشی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ پاکستان کی ’’سی پیک‘‘ کے سلسلے میں بھرپور مدد کرتے۔ مگر ’’سی پیک‘‘ کی وجہ سے پوری مغربی دنیا اور سب سے زیادہ امریکہ پاکستان سے ناراض ہے۔
اس وقت بھی اگر آئی ایم ایف کا معاملہ الجھ گیا ہے تو اس کا سبب امریکہ ہے۔ امریکہ اب نہیں بلکہ ایک عرصے سے پاکستان کو چین سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب بھی امریکہ پاکستان پر یہ تنقید کر رہا ہے کہ اس نے چین سے قرضہ کیوں لیا؟ امریکہ کا سیکریٹری خارجہ اس مؤقف پر اڑا ہوا کہ اگر پاکستان چین سے قرضہ نہ لیتا تو اس وقت اس قدر پریشان نہ ہوتا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟ اگر آئی ایم ایف سے قرضہ لینا درست ہے تو پھر چین سے قرضہ لینا غلط کیوں ہے؟ اگر چین سے قرضہ لینا غلط ہے تو پھر آئی ایم سے قرضہ لینا صحیح کس طرح ہو سکتا ہے؟ کیا چین نے پاکستان کو زیادہ انٹریسٹ پر قرضہ دیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر معاملہ کیا ہے؟
اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اس بار جس طرح امریکہ کھل کر آگیا ہے، اس کا سبب یہ ہی ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کا منصوبہ عمل میں آئے۔ امریکہ پاکستان سے بہت ناراض ہے کہ اس نے چین کو دنیا کی بہترین بندرگاہ کیوں دی؟ امریکہ یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم ہو جائے گا اور اس کو آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کے قرضوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس لیے بات قرضے کی نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس بہت پیسہ ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دینے کے لیے تیار بھی ہے، مگر پاکستان کی موجودہ مجبوری سے امریکہ آئی ایم ایف کی معرفت اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کا نشانہ پاکستان نہیں، بلکہ سی پیک ہے۔
اس صورت حال میں چین کا کردار بہت اہم بن جاتا ہے۔ چین دنیا کی بہت بڑی اقتصادی قوت ہے۔ چین سے مغربی دنیا کے جو بھی معاشی مقابلے ہوتے ہیں، وہ ان عالمی مالیاتی اداروں کی معرفت ہوتے ہیں۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ چین کھل کر میدان میں آئے اور آئی ایم ایف کی اقتصادی اجارہ داری کو چیلنج کرے! اس وقت پوری دنیا میں آئی ایم ایف کا کوئی بھی نعم البدل نہیں ہے۔ آئی ایم ایف اپنی اقتصادی اجارہ داری کی وجہ سے دنیا کے کمزور ممالک پر اپنی مرضی کی شرائط عائد کرتا ہے اور دنیا کے غریب ممالک کے پاس ان کی فرمائشیں ماننے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ چین ایک نیا راستہ بن سکتا ہے۔ چین کو اپنی اقتصادی قوت سے دنیا کے غریب اور پسے ہوئے ممالک کو اقتصادی آزادی دلانے کے لیے وہ پالیسی اپنانا پڑے گی، جو عالمی سامراج کی بنیادوں کو ہلا سکتی ہے۔ چین بہت دانا اور چالاک ملک ہے۔ چین ایسی کسی بھی مہم جوئی کا حصہ نہیں بنے گا۔ مگر یہ کوئی مہم جوئی نہیں ہے۔ عالمی سرمائے دار اداروں نے اپنی مرضی کی شرائط عائد کرکے دنیا کے غریب ممالک کو مجبور سے زیادہ محکوم بنا دیا ہے۔ حالانکہ ایشیا سے افریقہ تک ان ممالک میں افرادی قوت بھی ہے اور ان کی مارکیٹ بھی کشادہ ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ ممالک صحت سے لے کر تعلیم کے شعبے تک ہر طرح سے بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کی صورت حال بدترین ہے۔ ان کو بہتر معاشی مدد فراہم کرنے کے لیے چین نئی قسم کا عالمی پروگرام شروع کر سکتا ہے۔ چین کی اس پیش قدمی سے آئی ایم ایف بھی اپنے رویئے اور اپنی شرائط میں بہتری لانے کے سلسلے میں مجبور ہو جائے گا۔
اجارہ داری کی ہر صورت بری ہوتی ہے۔ معاشی اجارہ داری تو سب سے سنگین نتائج کا سبب بنتی ہے۔ اس وقت صرف چین دنیا کی وہ طاقت ہے، جو آئی ایم ایف جیسی قوتوں کو قابو میں رکھ سکتا ہے۔ اگر چین چاہے تو آئی ایم ایف کی معرفت امریکہ کا تکبر مٹی میں مل سکتا ہے۔ اگر چین چاہے تو دنیا کے غریب ممالک کے لیے مدد کا حقیقی دروازہ کھل سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان جس طرح پریشان ہے، وہ ساری صورت حال چین کے سامنے ہے اور پاکستان کو کیوں پریشان کیا جا رہا ہے؟ چین کو ان اسباب کا ہم سے زیادہ علم ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ چین پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے لیے مجبور ہونے سے بچائے اور دوستی کا وہ ہاتھ بڑھائے، جس میں عزت بھی ہو، محبت بھی ہو اور اعتبار بھی ہو!!٭
٭٭٭٭٭
Next Post