اس بوڑھیا کا کہنا تھا کہ میرے انکار کے باوجود تیری ماں نے مجھ سے کہا :’’اماں تو میری مدد کرے تو میں کامیاب ہو سکتی ہوں۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’کیا حیلہ کیا جائے؟‘‘ تو تیری ماں نے کہا ’’فلاں گلی کے مکان میں ایک عرضی نویس ہے، وہ رقعے (خط) لکھ کر مردوں کو عورتوں سے ملاپ کراتا ہے اور اجرت لیتا ہے تو اس کو کہہ کہ وہ میرے بیٹے کو تحریر لکھے اور نام لیے بغیر کہے کہ ایک دو شیزہ تجھ سے عشق کی حد تک محبت کرتی ہے، وہ تجھ سے فلاں جگہ فلاں وقت ملاپ چاہتی ہے۔‘‘
اس بڑھی عورت نے کہا کہ میں ایسا ہی کیا اور جب تجھے میں نے وہ خط دیا تو، تو بھی فریفتہ ہوگیا اورتو نے لکھ دیا کہ ’’مجھے منظور ہے۔ فلاں وقت میں آجاؤں گا۔‘‘ تو میں نے تیری ماں کو وہ خط لا کردے دیا۔
تیری ماں نے جواب پڑھ کر کہا ’’اماں تم میرے بیٹے سے کہو کہ فلاں وقت، فلاں جگہ آجائے اور تو فلاں بالا خانہ اچھی طرح تیار کر اور اس میں پھل اور خوشبو وغیرہ کا انتظام بھی کر اور تو میرے بیٹے کو یہ بھی کہے کہ جس عورت نے تجھے بلایا ہے وہ ابھی دو شیزہ ہے، وہ روشنی پسند نہیں کرتی، بلکہ یہ کام اندھیرے میں بہتر ہے تاکہ تما رے والدین کو تم پر شک نہ گذرے۔‘‘
پھر میں تیرے پاس آئی تھی تو تونے یہ بات مان لی اور رات کا وقت مقرر ہوا۔ میں نے تیرا جواب تیری ماں کو پہنچایا تو اس نے بہترین کپڑے پہنے، عمدہ خوشبو لگائی اور وہ اس بالاخانہ میں پہنچ گئی اور پھر تو بھی پہنچ گیا اور پھر داد و عیش سحری تک جاری رہا۔ پھر تو وہیں سوگیا تو میں نے صبح کے وقت آکر تجھے جگایا۔
پھر چند دنوں کے بعد تیری ماں نے مجھ سے کہا ’’اماں، میں اپنے بیٹے سے حاملہ ہوگئی ہوں۔ اب میں کیا کروں؟‘‘ تو میں نے کہا ’’مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ تو کیا کرے۔‘‘ لیکن تیری ماں کسی حیلے بہانے سے تجھ سے اپنی خواہش کرتی رہی۔ حالانکہ ولادت کا وقت قریب آگیا تو تیری ماں نے تیرے باپ سے کہا کہ ’’میں بیمار ہوں، میں چاہتی ہوں کہ کچھ اپنی ماں کے پاس رہ آؤں۔‘‘ تو تیرے باپ نے اجازت دے دی۔ پھر میں اور تیری ماں نانی کے گھر چلی گئیں۔
وہاں ایک کمرے میں رہائش رکھ لی اور جب ولادت کا وقت آیا تو میں ایک دایہ کو بلاکرلائی تو تیری ماں کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جو کہ تیری ماں نے مار دیا اور پھر ہم نے وہ بچہ دفن کردیا۔ کچھ دن گزرے کہ تیری ماں نے مجھ سے کہا۔ ’’اب پھر میں اپنے بیٹے سے خواہش پوری کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ تو میں نے کہا۔ ’’بیٹی جو کچھ ہوچکا وہ تیرے لئے کافی نہیں؟‘‘ تو تیری ماں نے کہا۔ مجھے صبر نہیں ہے اور پھر اسی طرح یہ سلسلہ شروع ہوگیا… الخ
پھر جب وہ بڑھیا دوسرا واقعہ سنانے لگی تو اس عورت کے بیٹے نے یہ کہہ کر بات ختم کردی ’’اماں بس کر… اتنا ہی کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ میری ماں پر لعنت کرے اور ساتھ تجھ پر بھی لعنت ہو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور میں بھی اس کے ساتھ اٹھ کر آگیا۔ کاش کہ وہ بڑھیا دوسرے دو واقعات بھی سنادیتی۔
حاصل… اندازہ کیجئے کہ جب انسان کی شرم حیا ختم ہوجائے تو وہ کس قدر پستی میں چلا جاتا ہے، ہمیں چاہئے کہ اس واقعہ سے سبق حاصل کریں، اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگیں، اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے آمین یا رب العلمین۔
(بحوالہ ذم الھوی)
٭٭٭٭٭