عالمی بساط پر بڑی طاقتیں کس طرح شطرنج کی چالیں چلتی ہیں، اس کا ہلکا سا اندازہ آپ سعودی منحرف صحافی جمال خاشقجی کے معاملے سے لگا سکتے ہیں، جس نے دو بڑے اسلامی ملکوں ترکی اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ اسلامی دنیا میں انتشار کا نیا بیج بو دیا ہے۔ اس واقعہ کا تعاقب کرنے کے دوران ہمیں دیہاتوں میں موجود روایتی پیر یاد آگئے، جو اپنا منجن بیچنے کے لئے گھروں میں انتشار پیدا کر دیتے ہیں، ساس اور بہو دونوں کو مرید بنا کر اپنے چڑھاوے کھرے کر لیتے ہیں، دوسری طرف ان کے مریدوں کا گھر انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ ساس اور بہو رشتہ ہی ایسا ہے کہ ان کے درمیان اچھے تعلقات کی مثال ہمارے معاشرے میں کم ہی ملتی ہے، اس لئے روایتی پیر ہمارے معاشرے کی اس کمزوری سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، ایسا ہی ایک واقعہ ہماری نظر سے بھی گزرا تھا۔ ہوا یوں کہ ساس اور بہو گائوں کے ایک ہی پیر کے پاس جاتی تھیں۔ دونوں ایک دوسرے پر شک کرتی تھیں۔ ساس سمجھتی تھی کہ بہو نے اس پر کچھ تعویذ کرایا ہوا ہے اور بہو ساس کے بارے میں ایسے خیالات رکھتی تھی۔ اب پیر صاحب کو بھی دونوں نے یہ بات بتا دی اور اس کا توڑ کرنے کے لئے مدد مانگ لی۔ پیر صاحب نے دونوں کو یقین دلا دیا کہ ان کا شک ٹھیک ہے اور ان دونوں کو بھاری بھرکم چڑھاوے لے کر توڑ والے تعویذ تھما دیئے۔ یہ بھی بتا دیا کہ انہیں یہ تعویذ گھر کے کس حصے میں رکھنے ہیں۔ سختی سے ہدایت کر دی کہ وہ تعویذ رکھنے کا کسی کو نہ بتائیں، ورنہ الٹا عمل ہو جائے گا اور وہ پھر اس کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔ ساس اور بہو نے پیر صاحب کی بتائی ہوئی جگہوں پر تعویذ رکھ دئیے۔ اب کچھ دنوں کے بعد ساس اور بہو دوبارہ الگ الگ پیر صاحب کے پاس گئیں، تو انہوں نے ساس سے جس جگہ تعویذ رکھوایا تھا، وہ بہو کو بتا دی اور بہو والی جگہ ساس کو بتا دی اور کہا کہ انہوں نے اپنے علم کے ذریعے اس کا پتہ چلایا ہے۔ وہ جاکر وہاں سے تعویذ نکال لیں، تاکہ ان پر جو اثر کرایا گیا ہے، اس کا توڑ ہو سکے۔ ظاہر ہے دونوں کو ایک دوسرے کے رکھے ہوئے تعویذ مل گئے اور وہ پیر صاحب کے ’’علم‘‘ کی مزید قائل ہوگئیں۔ دوسری جانب تعویذ ملنے کے بعد ساس کو بہو اور بہو کو ساس دشمن نظر آنے لگی، ان کے درمیان اختلاف لڑائی جھگڑے میں بدل گیا اور ایک گھر میں رہنا مشکل ہوگیا۔ بیرون ملک موجود بیٹا ماں اور بیوی کے جھگڑوں سے پریشان ہو گیا اور چھٹی لے کر گھر آگیا۔ اب ماں نے اسے اپنی کہانی اور بیوی نے اپنی بات بتائی تو بندہ سمجھدار تھا، وہ تہہ تک پہنچ گیا۔ دونوں کو آمنے سامنے بٹھایا تو یہ بات کھل گئی کہ اصل میں یہ پیر صاحب کی شرارت تھی۔ انہوں نے پہلے تعویذ رکھوائے اور پھر دونوں کو جگہ بتا دی۔ پیر صاحب کا تو کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا تھا، لیکن یہ ضرور ہوا کہ گھر ٹوٹنے سے بچ گیا۔
اب منحرف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے معاملے میں لگتا ہے پیر والا کام امریکہ بہادر نے سنبھالا ہوا ہے۔ جمال خاشقجی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے بھی وابستہ تھا اور اس کے اخبار نے ہی یہ خبر دی ہے کہ امریکی انٹیلی جنس حکام کے پاس یہ اطلاعات تھیں کہ سعودی حکومت خاشقجی کو قابو کرنے کے لئے منصوبہ بنا چکی ہے۔ امریکی انٹیلی جنس چاہتی تو خاشقجی کو اس سے آگاہ کر سکتی تھی۔ ایسی صورت میں وہ کبھی ترکی میں سعودی قونصلیٹ نہ جاتا، لیکن امریکی انٹیلی جنس نے خاشقجی کو خبردار کیا اور نہ ہی واشنگٹن پوسٹ نے۔ امریکی میڈیا تو ویسے ہی وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار ہے۔ اسی امریکی میڈیا نے جانتے بوجھتے ہوئے لاہور میں دو پاکستانی نوجوانوں کو کچلنے والے سی آئی اے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کو سفارت کار قرار دیا تھا اور جب ریمنڈ ڈیوس پاکستانی حدود سے نکل گیا تو پھر بڑے فخر سے یہ خبر دی تھی کہ انہیں تو پہلے روز سے علم تھا کہ ریمنڈ ڈیوس سی آئی اے افسر ہے، لیکن امریکی مفاد کی خاطر انہوں نے یہ بات چھپائے رکھی تھی۔ جمال خاشقجی کے معاملے میں بھی ہو سکتا ہے ملکی مفاد اخبار کے آڑے آگیا ہو، اس لئے خبر خاشقجی کے لاپتہ ہونے کے بعد جاری کی گئی۔ اس سے یہ بات ایک بار پھر ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ اظہار اور میڈیا کی آزادی کی باتیں وہ ہمارے لئے کرتے ہیں۔ یہ کھلونے وہ ہمیں کھیلنے کے لئے دیتے ہیں، اپنے ہاں ان کے لئے امریکی مفاد سب سے مقدم ہے اور ہمارے خیال میں ہونا بھی چاہئے۔ خیر واپس اصل موضوع کی طرف آتے ہیں، جیسا کہ خود واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس خاشقجی کے بارے میں سعودی حکام کے منصوبے سے آگاہ تھی، تو اس سے کئی سوالات ذہن میں آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کیا امریکی حکام نے ہی تو خاشقجی کو اس سفر کی جانب نہیں دھکیلا؟ کیوں کہ وہ اچھا بھلا امریکہ میں رہ رہا تھا، آخر اسے ایسی کیا ضرورت پیش آگئی تھی کہ وہ ترکی آگیا۔ خاشقجی جس کام کے لئے استنبول کے سعودی قونصل خانے گیا تھا، وہ بھی شکوک بڑھاتا ہے کہ اسے اس جانب دھکیلا گیا ہوگا، وہ اپنی ترک منگیتر سے شادی کرنے جا رہا تھا اور سعودی عرب میں موجود سابق بیوی کو طلاق دینے کی دستاویزات کی تصدیق کے لئے قونصل خانے گیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خاشقجی کو اس تصدیق کی ضرورت کیا تھی؟ وہ بیوی کو چھوڑ چکا تھا، شرعی لحاظ سے اس پر نئی شادی کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی اور ویسے بھی وہ تو سیکولر آدمی ہے، امریکہ میں مستقل رہتا تھا، اس کے لئے تو شادی وغیرہ کا تکلف کرنا اتنا ضروری بھی نہیں تھا، پھر کیوں اس نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالا؟ اگر طلاق نامے کی تصدیقی دستاویزات اسے درکار بھی تھیں تو اس نے امریکہ میں سعودی سفارت خانے یا کسی قونصل خانے سے رجوع کیوں نہیں کیا، جہاں وہ محفوظ رہتا؟ ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات میں کافی عرصے سے تنائو ہے۔ خاشقجی جیسے ہوشیار بندے نے اس کے باوجود ترکی میں سعودی قونصل خانے کا انتخاب خود کیا ہوگا، یہ ماننے کو دل نہیں چاہتا۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نے اسے اس راستے پر دھکیلا ہوگا اور سوال تو ذہنوں میں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس نے منگیتر کے لئے ترک خاتون کو کیوں چنا؟ یہ اس کا اپنا انتخاب تھا یا جس طرح اسے سعودی قونصل خانے کی طرف دھکیلا گیا، اسی طرح منگیتر کا انتخاب بھی مینج کیا گیا تھا؟ اب خیر سے امریکی صدر ٹرمپ نے خاشقجی کی ترک منگیتر کو وائٹ ہائوس آنے کی دعوت بھی دے دی ہے۔ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ جمال خاشقجی عالمی بساط پر ایک چھوٹے سے مہرے کی حیثیت سے استعمال ہوگیا ہے، اس کھیل کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سعودی عرب اور ترکی ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں، ان کے درمیان کشیدگی انتہا کو چھو رہی ہے۔
جمال خاشقجی زندہ ہے یا مر چکا ہے، اس بارے میں تو فی الحال کوئی بات مصدقہ نہیں کہی جا سکتی، لیکن ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جمال خاشقجی کی وجہ سے مسلم دنیا میں ایک نئی دراڑ پڑ گئی اور یہ دراڑ ڈالنے والے اب اسے مزید گہرا کرنے کے لئے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ مقصد یہ نظر آتا ہے کہ سعودی عرب کو دبائو میں لے کر کچھ نئے مطالبات منوا لئے جائیں، یعنی چٹ بھی ان کی ہوگی اور پٹ بھی۔ امریکہ نے اس معاملے پر سعودی عرب پر دبائو بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ خود یہ بات کر رہے ہیں کہ وہ خاشقجی کے معاملے میں حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔ امریکی میڈیا سعودی عرب کے خلاف پورا ماحول بنا رہا ہے۔ کانگریس ارکان کی طرف سے خاشقجی کی گمشدگی یا ممکنہ قتل کو عالمی چارٹر کے خلاف قرار دے کر تحقیقات کا مطالبہ سامنے آگیا ہے، حالاں کہ یہ تو ایک خاشقجی ہے اور وہ بھی آپ کچھ بھی کہیں سعودی عرب کا باغی ہی تھا، لیکن یہی امریکہ اور اس کی کانگریس فلسطین میں معصوم بچوں اور خواتین کو بھی شہید کرنے والی اسرائیلی فوج کا دفاع کرتے ہیں۔ ہزاروں فلسطینیوں کا خون بھی انہیں عالمی چارٹر کے مطابق نظر آتا ہے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی مختلف ملکوں میں کارروائیاں کرکے حریف ملکوں کے سائنس دانوں اور اہم حکام کی ٹارگٹ کلنگ کرتی رہتی ہے، لیکن وہاں بھی انہیں عالمی چارٹر متاثر ہوتا نظر نہیں آتا، یہاں چوں کہ سعودی عرب کا بازو مروڑنے کی کوئی ضرورت درپیش ہے، اس لئے ایک خاشقجی کی گمشدگی انہیں عالمی چارٹر کے خلاف نظر آگئی۔ تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، لیکن ساتھ ہی امریکی حکام یہ بھی واضح کر رہے ہیں کہ سعودی عرب کو اسلحے کی سپلائی متاثر نہیں ہوگی، کیوں کہ ٹرمپ کے بقول اس میں امریکہ کا فائدہ ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امریکی حکام ہر وہ کام کرتے ہیں، جس میں ان کے ملک کا فائدہ ہوتا ہے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ سعودی عرب اور ترکی شطرنج کی ان چالوں کو سمجھ نہیں پا رہے۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو رہے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ خاشقجی اگر مطلوب تھا تو سعودی حکومت ترکی میں اس کی آمد پر حوالگی کا مطالبہ کرتی۔ اسی طرح ترکی کی حکومت کو اس معاملے پر پھونک پھونک پر قدم رکھنے چاہئیں اور عالمی کھیل کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھنا چاہئے۔ اسے سمجھنا چاہئے کہ جس طرح وہ گولن اور اس کے ساتھیوں کی حوالگی چاہتی ہے، یہی حیثیت خاشقجی کی سعودی عرب کے لئے تھی، ساس اور بہو کے درمیان جعلی پیر کا کھیل ناکام بنانے تو ان کا بیٹا بیرون ملک سے آگیا تھا، لیکن سعودیہ اور ترکی کے درمیان عالمی کھیل ناکام بنانے کے لئے کوئی اسلامی ملک اہل نظر نہیں آتا، اس لئے ان دونوں کو خود ہی ٹھنڈے دل سے اس معاملے کو حل کرنا چاہئے۔ ورنہ عالمی پیر ان کے ساتھ ساس بہو والا کھیل کھیلتا رہے گا اور ان کا گھر اجڑتا رہے گا۔٭
٭٭٭٭٭