جب تک تم میرے پاس آؤ گے

0

اچھی حکمرانی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ قوم کو درپیش سب سے زیادہ سنگین مسئلے پر فوری توجہ دے کر اسے حل کیا جائے۔ کوئی بھی نئی پارٹی تنہا یا دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائے تو اسے سب سے پہلے اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان نے اپنی حالیہ انتخابی مہم میں لوگوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ اگر لوگوں کے مسائل فوری طور پر حل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو ان میں اضافے کا باعث بھی نہ بنیں گے۔ پاکستان کے عام شہری ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کے پرفریب اعلانات و بیانات سے مایوس ہوکر نئی ابھرتی ہوئی جماعت، تحریک انصاف سے یہ آس لگا بیٹھے کہ وہ شاید نئے عزم و حوصلے اور نوجوانوں کی ٹیم کے ساتھ اقتدار کے میدان میں اتری تو بہتر تبدیلی کی جانب سفر کا کم از کم آغاز تو ہو جائے گا، حالانکہ عمران خان کے بارے میں کئی حوالوں اور ان کے یوٹرن کی پالیسی سے پوری طرح واقف محب وطن سیاسی تجزیہ نگار اور مبصرین بار بار آگاہ کر رہے تھے کہ ان تلوں میں بھی کوئی تیل نہیں ہے، لیکن اہل وطن کی ازلی بدقسمتی کہ اندرونی و بیرونی قوتیں جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو باری باری اقتدار میں لاتی رہیں، 2018ء میں جب انہوں اندازہ کرلیا کہ اب رائے دہندگان ان پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں تو مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی مدد سے یہ تاثر عام کیا گیا کہ عمران خان ہی پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تاہم قوم یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ تحریک انصاف کے پاس ملک کو چلانے کا کوئی باقاعدہ نظام ہے نہ پروگرام۔ حسب سابق وعدے ہی وعدے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف نے بار بار اعلان کیا تھا کہ ملک کے اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لئے انہوں نے اقتدار سے قبل اتنا اور ایسا ہوم ورک کرلیا ہے کہ نئی حکومت ابتدا ہی میں بڑی آسانی سے عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف کے پاس قرضے اور امداد کا کشکول لے کر نہ جانے کی بات متعدد بار دوہرائی گئی، لیکن اب وزیر خزانہ اسد عمر صاف انکار کررہے ہیں کہ ان کی جماعت نے ایسی کوئی بات کبھی نہیں کی۔ اب بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ اگر اس عالمی سود خور ادارے نے امریکا کے دباؤ پر سخت شرائط کے ساتھ قرضے کی پیشکش کی تو انہیں ٹھکرا کر اس کے سامنے سے کشکول گدائی ہٹالیا جائے گا، جبکہ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ اندرون خانہ معاملات طے پاچکے ہیں، رسمی کارروائیوں اور مذاکرات کی آڑ میں عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف اور اس کی حکومت نے اپنے متعدد بیانات اور وعدوں سے یوٹرن لے کر عوام کے اعتماد کو شدید دھچکا لگایا ہے اور یہ کام دو ماہ سے بھی کم مدت میں کر دکھایا ہے۔ اتنے کم عرصے میں تو پاکستانی قوم کسی بدترین اور نہایت بدعنوان سیاسی جماعت سے بھی مایوس نہیں ہوئی، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں بھی دوسری سیاسی جماعتوں کے مجموعی ووٹ تحریک انصاف سے زیادہ رہے۔
پاکستان کے غریب اور مفلوک الحال باشندوں کا بنیادی مسئلہ ’’روٹی اور پانی‘‘ ہے، لیکن وزیراعظم عمران خان انہیں تسلی دے رہے ہیں کہ پانچ سال بعد پاکستان یورپ سے زیادہ صاف و شفاف ملک ہوگا۔ پانچ سال کس نے دیکھے ہیں؟ عوام تو ابھی بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ ہم ان کالموں میں کئی سال سے حکمرانوں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اہل وطن کو ’’گا، گی، گے‘‘ کی گردان میں الجھا کر سنہرے خواب نہ دکھائیں۔ کوئی کام حتمی اور فوری طور پر کرکے کہیں کہ دیکھو ہم ملک و قوم کے لئے یہ اور یہ کر چکے ہیں۔ ایک فارسی ضرب المثل کہ ’’تا تریاق از عراق آوردہ شود، مار گزیدہ مردہ شود‘‘۔ یعنی جب تک عراق سے تریاق (زہر کی دوا) آئے گی، سانپ کا ڈسا ہوا انسان تو مرچکا ہوگا۔ روٹی اور پانی کے مسئلے سے لوگ آج دوچار ہیں، لیکن ان سے کہا جارہا ہے کہ پانچ سال بعد ہمارا ملک یورپ سے زیادہ صاف ہوگا۔ جو لوگ اپنے عہد پر چند ماہ بھی قائم نہ رہ سکیں اور مختلف معاملات میں قلا بازیاں کھائے نظر آئیں، ان پر پانچ سال کے لئے کوئی کس بنیاد پر اعتماد کرسکتا ہے۔ پھر یہ کہ یورپ کوئی ایک ملک نہیں، کئی ممالک کا مجموعہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان پاکستان کو ان میں سے کس ملک کے مقابلے میں صاف ستھرا کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ انہوں نے جھاڑو اٹھا کر صفائی کا جو نمائشی اور سطحی مظاہرہ کیا، وہ بھی کسی پس ماندہ علاقے کی غریب بستی میں نہیں، بلکہ اسلام آباد کے ماڈل گرلز کالج میں کیا، جو ماڈل ہونے کی وجہ سے یقیناً پہلے ہی صاف ستھرا ہوگا۔ ایک بڑی اور بانس لگی جھاڑو پھیرنے اور سبزہ زار پر پھینکے گئے کاغذ اٹھانے کے فوری بعد عمران خان کو واش بیسن پر جاکر ہاتھ دھونے پڑے۔ لیاری اور مٹیاری جیسے کسی علاقے میں جانے کی وہ ہمت ہی نہ کرتے۔ بالفرض محال اگر وہ ایسا کرنے پر مجبور بھی ہوجاتے تو انہیں قریب میں واش بیسن کی نہیں، صاف ستھرے غسل خانے کی ضرورت پڑتی۔ اگر ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر کم ہیں، معیشت بری طرح زبوں حال ہے اور آئی ایم ایف کی قرضوں کے حوالے سے شرائط پوری نہ کرنے پر قرضوں سے انکار کرنا پڑا تو ملک میں دس ارب درخت لگانے، پچاس لاکھ گھر بنانے اور لاکھوں نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے وعدوں اور دعوئوں کا کیا بنے گا؟ عالمی مالیاتی ادارے امریکا اور یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ کیا وہ عمران خان کے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے کوئی نرم گوشہ ظاہر کریں گے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کو سرسبز و شاداب بنانے کے بجائے ان کے سبز قدم یہاں پڑیں اور ہمارے بچے کھچے اثاثے بھی ان کی تحویل میں چلے جائیں۔ ان کے کارندے یہاں جھاڑو لگاتے لگاتے بالکل ہی جھاڑو نہ پھیر جائیں۔ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے لئے مدینہ کو اپنا ماڈل قرار دیا تھا، اس جانب بھی کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ ان سے ایک بار پھر پوچھ لیا جائے کہ ان کی مراد مدینۃ النبیؐ سے تھی یا انہوں نے عربی کے لفظ مدینہ کو صرف شہر کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ عام پاکستانیوں نے تحریک انصاف سے یہ توقعات وابستہ کرلی تھیں کہ ایک نہ ایک دن عمران خان غریب بستیوں کی گلیوں کے چکر لگا کر ان کے مسائل حل کریں گے، لیکن نئی حکومت کے آغاز ہی میں ہر شہری یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ ’’تاتو بمن می رسی، من بہ خدا می رسم‘‘ یعنی جب تک تم میرے پاس آؤ گے، میں تو اللہ کے ہاں پہنچ چکا ہوں گا۔ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More