قاضی ابو سائبؒ کہتے ہیں:
’’میں ہمدان سے عراق آنے کا ارادہ کرتے ہوئے تنگ دستی کی حالت میں چلا، میں نے حضرت حسینؓ کی قبر کی زیارت کی، پھر جب میں نے ابن ہبیرہ کے محل کی راہ لی تو مجھ سے کہا گیا کہ یہ سرزمین درندوں سے بھری پڑی ہے، اور مجھے یہ مشورہ دیا گیا کہ میں اس گائوں میں چلا جائوں، جس میں ایک قلعہ ہے اور اس کا نام بھی بتایا گیا تو میں شام تک اس میں پہنچ جائوں گا۔
اور حال یہ تھا کہ میں پیدل چل رہا تھا، تو میں نے چلنے کی رفتار تیز کر دی، تاکہ جلدی پہنچ جائوں، یہاں تک کہ میں قلعے کے دروازے پر جا پہنچا۔ تو میں نے قلعے کے دروازے کو بند پا کر اسے کھٹکھٹایا، لیکن اسے نہیں کھولا گیا۔ میں نے اس کے محافظوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا: ’’یہاں ایک مسجد ہے تو آپ اس میں ٹھہر جائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ رات کے وقت درندے آپ کو کھالیں۔‘‘
میں مسجد کی طرف چلا اور اس میں ایک کمرے میں داخل ہو کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ایک آدمی گدھے پر سوار ہو کر آیا اور مسجد میں داخل ہو کر اپنے گدھے کو دروازے کے کنڈے سے باندھ کر میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اس کے پاس ایک تنگ منہ کا کوزہ تھا، جس میں پانی تھا، پھر اس نے ایک چراغ نکال کر جلایا اور اپنا کھانا نکال لیا۔ تو میں نے بھی اپنا کھانا نکال لیا اور ہم کھانے پر اکٹھے ہوئے۔
ابھی ہم باہر کسی شیر کی موجودگی کو محسوس کر ہی رہے تھے کہ وہ مسجد میں داخل ہو گیا۔ جب گدھے نے شیر کو دیکھا تو اس کمرے میں داخل ہو گیا، جس میں ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ شیر بھی اس کے پیچھے آکر اندر داخل ہو گیا۔ تو گدھے نے باہر نکل کر دروازے کو اپنے پیچھے رسی سے کھینچ کر ہمیں اور شیر کو اندر بند کر دیا، اب ہم نے انتہائی برا حال محسوس کیا۔ ہم نے یہ اندازہ کیا کہ شیر چراغ کی وجہ سے ہمارا رخ نہیں کر رہا اور جب چراغ بجھ جائے گا تو وہ ہمیں کھا لے گا اور تھوڑی ہی دیر بعد چراغ میں موجود تیل ختم ہو گیا اور ہمارے پاس کوئی نکلنے کا راستہ نہ تھا۔
گدھے نے خوف کے مارے لید کر کے مسجد کو لید سے بھر دیا تھا، اسی خوف کی حالت میں رات گزر گئی۔ خوف کے سبب قریب تھا کہ ہم ہلاک ہو جاتے۔ ہم نے قلعے کے اندرونی حصے سے اذان کی آواز سنی۔ صبح کی روشنی نمودار ہو گئی۔ مؤذن قلعے سے آکر مسجد میں داخل ہوا، جب اس نے گدھے کی لید دیکھی تو لعن طعن کرنے لگا، پھر گدھے کا پٹہ کنڈے سے کھولا تو وہ تیزی سے صحرا میں بھاگ کھڑا ہوا اور مؤذن نے یہ دیکھنے کے لیے کہ کمرے میں کون ہے؟ جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھولا تو شیر نے چھلانگ لگا کر اس کو روند ڈالا اور اسے لے کر جھاڑی کی طرف چلا گیا اور ہم صحیح و سالم کمرے سے نکل گئے جو مقدر میں طے تھا وہ ہوکر رہا۔
آدھی رات شیر کے ساتھ خوف کی حالت میں گزارتے ہوئے بھی خدا کی طرف سے ہماری حفاظت مقدر تھی، خدا پاک نے حفاظت فرمائی اور مؤذن کی شہادت مقدر تھی اس کو شہادت ملی۔‘‘
قیدیوں کو رہائی ملی
2 اگست 1990ء میں وہ واقعہ ہوا جو وہم و گمان میں بھی نہ تھا اور جس کی توقع پڑوسی مسلمان تو کیا کوئی بھی مسلمان نہیں کرسکتا تھا۔ عراقی فوجیں اپنے صدر کے حکم سے کویت میں اتر گئیں جو کہ اس کا پڑوسی ملک ہے۔
عراقی فوجوں نے لوٹ مار، چوری ڈکیتی قتل وغارت گری اور زور زبردستی کے وہ گھناؤنے انداز اختیار کیے جو زمانہ جاہلیت کی حالت سے میل کھاتے تھے، بلکہ اس سے بھی چند ہاتھ آگے تھے۔ انہوں نے جیلوں کے دروازے کھول دیئے جن سے تمام مجرم اور فاسق و فاجر نکل پڑے۔
جو لوگ رہا ہوئے ان میں اکثریت ان افراد کی تھی ،
جنہیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی تھی، کیوں کہ وہ کویت کے صدر پر کئے گئے قاتلانہ حملے میں ملوث تھے، مگر شاہی سواری کے تباہ و برباد ہونے کے بعد حق تعالیٰ نے ان کو بچالیا عراقی فوج کے ذریعے۔
چناں چہ جب عراقی فوجیں کویت میں داخل ہوئیں تو انہوں نے جیلوں کے دروازے کھولتے ہوئے سب قیدیوں کو رہا کردیا، جن میں سے ایک شخص کا بیان یہ تھا کہ وہ بالکل بے قصور تھا اور صدر کے قتل کی سازش میں اس کا کوئی ہاتھ نہ تھا، وہ رہا تو ہوگیا تھا، لیکن اسے یقین نہ آتا تھا… وہ اکثر کہا کرتا تھا: ’’پریشانی کے بعد راحت ضرور ملتی ہے۔‘‘
(الفرج بعد الشدۃ، مولف شیخ ابراہم الحازمی)
Prev Post
Next Post