خالد بن یزیدؒ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم اور عارف تھے، فن حدیث میں امتیازی مقام رکھتے تھے، امام زہریؒ نے آپ سے بھی روایت کی ہے، حق بات کہنے میں کسی سے خوف نہیں کھاتے تھے، خلیفہ وقت عبد الملک بن مروان کو کئی مرتبہ بھرے دربار میں اس کی غلطیوں پر تنبیہ فرمائی۔
مورخین کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ان سے دریافت کیا گیا کہ انسان سے سب سے زیادہ کیا چیز قریب ہے؟ آپ نے فرمایا: موت! اب دوسرا سوال یہ کیا گیا کہ امید بندھانے والی کیا چیز ہے؟ جواب دیا: عمل! پھر سوال ہوا: دنیا میں سب سے زیادہ وحشت کس چیز سے ہوتی ہے؟ ارشار ہوا: میت سے! ان سے دنیا کی حقیقت دریافت کی گئی تو فرمایا: دنیا ایک منتقل ہونے والی میراث ہے۔
پس جو طاقتور ہے، اس کو اپنے کمزور ہو جانے کا خطرہ لگا ہے اور مالداروں کو مفلس ہو جانے کا، کتنی ہی طاقتور قومیں کمزوری و ناتوانی کا شکار ہو گئیں اور کتنے ہی مالداروں پر غربت کا سایہ بڑھنے لگا اور اگر کوئی شخص خود پسندی و خودرائی میں مبتلا ہے تو سمجھ لو کہ اس کا دیوالیہ ہو چکا ہے۔
یحییٰ بن معاذؒ اپنے وقت کے بڑے ولی گزرے ہیں، فرماتے ہیں کہ عقل مند وہ ہے جو دنیا کو چھوڑ دے، اس سے پہلے کہ دنیا اس کو چھوڑ دے اور اپنی قبر پہلے سے تیار کر لے، اس سے پہلے کہ اس کو اس میں داخل کیا جائے اور اپنے رب کو راضی کر لے، اس سے پہلے کہ وہ اس کی بارگاہ میں حاضر ہو۔ (کچھ دیر اہل حق کے ساتھ، ص: 13)
دل کا حال!
ایک درویش دوسرے درویش سے ملا تو کہنے لگا میں آپ سے خدا کے لیے محبت کرتا ہوں، دوسرے نے کہا: اگر آپ میرے دل کا وہ اصل حال جان لیں جو میں جانتا ہوں تو آپ مجھ سے بغض کرنے لگیں گے، پہلے نے کہا: آپ کی اندرونی اصلی حالت کا اگر مجھے علم بھی ہوجائے تو جو میں اپنے بارے میں جانتا ہوں وہ آپ کے بغض سے اعراض کرنے کے لیے کافی ہوگا کہ میری حالت بہرحال آپ سے بدتر ہے۔
( کتابوں کی درسگاہ میں)
تکبر کا علاج!
مسجد میں جب سو جاتے تو مولانا اسماعیل شہیدؒ مسافروں کے پیر دبایا کرتے تھے، صرف اس واسطے کہ تواضع پیدا ہو، ایک دفعہ مولانا کسی سفر میں کسی مسجد میں ٹھہرے تو وہاں کسی نے ان کو مسجد سے نکال دیا، لوگوں کو جب معلوم ہوا تو وہ آئے اور اس شخص سے مولانا کا تعارف کرایا، پھر تو وہ پاؤں میں پڑگیا اور معافی چاہی، مولانا نے اس کو معاف کردیا، پوچھنے پر فرمایا کہ میں نے اپنے تکبر کا علاج کیا ہے۔ (پسندیدہ واقعات)
٭٭٭٭٭
Prev Post