سید ارتضی علی کرمانی
باوا فضل دین کلیامی:
حضرت باوا فضل دین کلیامی بہت بڑے ولی کامل گزرے ہیں۔ کلیان اوان راولپنڈی سے تقریباً 16 میل دور لاہور روڈ کے قریب واقع ہے۔ حضرت باوا صاحب کا سلسلہ چشتیہ صابریہ تھا۔ آپ پیر طریقت حضرت حافظ محمد شریف خان دہلوی کے مرید تھے۔ حافظ صاحب بابر بادشاہ کی اولاد میں سے تھے۔ حافظ صاحب کا مزار بھی کلیان شریف میں ہے۔ کثرت جذب و سکر کا غلبہ رہتا تھا۔ ایک مرتبہ مقامی علمائے کرام نے کہا کہ ہم آپ کا جنازہ نہیں پڑھیں گے۔ فرمایا کہ میرا جنازہ علم شریعت کا اتنا بڑا شیر آکر پڑھائے گا کہ تم لوگوں کو مجبوراً شا مل ہونا پڑے گا۔
آپ نے بہت عرصہ قبل حضرت صاحب سے کہہ رکھا تھا کہ یہ مولوی لوگ میرے حال سے بے خبر ہیں اور کہتے ہیں کہ تمہارا جنازہ نہیں پڑھائیں گے۔ چنانچہ آپ کو آکر جنازہ پڑھانا پڑے گا۔ ادھر اپنے خدام کو بھی وصیت کردی تھی کہ میرا جنازہ پیر صاحبؒ پڑھائیں۔ حضرت صاحبؒ فرماتے تھے کہ جس رات باوا صاحبؒ کا انتقال ہوا۔ انہوں نے خواب میں آکر مجھ سے کہا:
’’پیر جی میں مر گیا ہوں، میرا جنازہ آکر پڑھا جاؤ‘‘
چنانچہ صبح سویرے حضرت صاحبؒ نے گھوڑا سواری کے لئے تیار کرایا اور ایک خادم حافظ دین کو ہمراہ لے کر ریلوے اسٹیشن گولڑہ پہنچے، مگر گاڑی چھوٹ گئی۔ اب گھوڑے پر ہی راولپنڈی گئے اور ٹرین پکڑی۔ گولڑہ شریف ریلوے اسٹیشن پر باوا صاحب کی رحلت کا تار آیا رکھا تھا کہ مبادا تار بروقت نہ ملے۔ نہ جنازے میں اس قدر ہجوم تھا کہ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کو گھوڑے پر سوار ہو کر صفیں درست کرانا پڑیں۔
اب چونکہ حضرت صاحبؒ خود آگئے تھے، اس لئے وہ مولوی حضرات بھی شریک نماز جنازہ ہوئے، جو بڑھ چڑھ کر باوا صاحب پر اعتراضات کیا کرتے تھے۔
آپ کا وصال یکم جنوری 1892ء کو ہوا۔ اس روز جمعۃ المبارک تھا۔ روایت ہے کہ جب حضرت صاحبؒ نماز جنازہ میں شرکت کے لئے آرہے تھے تو باوا صاحب بستی کے باہر زندہ نظر آئے۔ حضرت صاحبؒ نے فرمایا کہ ’’باواجی آپ تو یہاں پھر رہے ہیں میں جنازہ کس کا پڑھاؤں گا‘‘ مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ آل رسولؐ میرے گھر میں آئے اور میں اس کا استقبال نہ کروں۔‘‘
حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ فرماتے تھے کہ جہاد نفس میں انہیں بلند مقام حاصل تھا۔ چنانچہ ایک روز مجھ سے فرمایا کہ
’’پیر جی! درویشی مجاہدہ کا نام ہے۔ کئی برس سے نفس ٹھنڈا پانی مانگتا ہے، مگر میں اسے گرم پانی دیتا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ کس پھل کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے۔ خوراک کے طور پر دال کے چند گھونٹ دوسرے تیسرے وقت پی لیتا ہوں‘‘
باوا صاحب نفس کشی میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے۔ گرمیوں کی دھوپ میں پتھر کی ایک سل پر پڑے رہتے اور سردیوں کے موسم میں سقے کو چھت پر کھڑا کر کے ٹھنڈے پانی کی دھار اپنے سر پر ڈلواتے۔
حضرت صاحبؒ فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ میں اور باوا صاحب پاک پتن کے عرس پر اکٹھے گئے۔ جب بہشتی دروازہ کھلنے کا وقت قریب آیا تو باوا صاحب نے کہا کہ ’’پیر جی! دیکھنا جب بہشتی دروازہ کھلے گا تو حضرت گنج شکرؒ کی قبر پر جو کلس ہے، وہ گھوم جائے گا۔‘‘ چنانچہ میں نے دیکھا کہ واقعی کلس گھوم گیا۔ حضرت صاحبؒ نے 1908ء میں بہشتی دروازہ کھلنے سے قبل ایک جم غفیر کے سامنے یہ راز ظاہر فرمایا۔
چنانچہ بے شمار لوگوں نے اپنی آنکھوں سے عکس گھومتا دیکھا اور اس قول کی تصدیق کی۔ اس روز عکس کے گھوم جانے کی حکمت حضرت صاحبؒ نے یہ بیان فرمائی کہ اس وقت سرور پاک ارواح آتی ہیں اور یہ ایک طرح کی سلامی ہے۔
ایک مرتبہ حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب بذریعہ ٹرین واپس آرہے تھے۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ صبح سویرے جب کلیان شریف قریب آیا تو فرمایا کہ ادھر کی کھڑکیاں کھول دو کہ باوا فضل دین کی قبر سے عشق الٰہی کی ہوائیں چلتی ہیں۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post