مولانا کی گفتگو سے امید کا ایک دروازہ کھلتا ہوا لگ رہا تھا۔ سیلانی کے استاد محترم تو امریکہ کو وہ سانپ کہتے ہیں، جسے کچھ ڈسنے کو نہ ملے تو اپنی دم ہی منہ دبا لیتا ہے، لیکن امید کا دامن چھوڑا بھی تو نہیں جاسکتا۔ سیلانی کو خوشی ہوئی کہ شاید اب وہ وقت قریب آیا ہی چاہتا ہے جب ارسلا خان اپنے معذور باپ اور بچوں کے ساتھ بے خوف و خطر اپنے ملک جا سکے گا۔ ارسلا خان ان معنوں میں پاکستانی ہے کہ اس نے کراچی میں آنکھ کھولی اور ان معنوں میں افغان ہے کہ اس کا معذور باپ طورخم پار کا رہائشی ہے۔ بارودی سرنگ کو اپنی ٹانگ کا خراج دینے کے بعد ارسلا خان کا باپ پاکستان آگیا تھا، یہاں اس نے امداد کو اپنا ذریعہ آمدنی بنانے کے بجائے مصنوعی ٹانگ لگا کر محنت مزدوری شروع کر دی۔ وہ ایک ہوٹل میں برتن دھوتا تھا، اسے اس کام میں مشکل ہوئی تو اس نے ایک جگہ نسوار کوٹنا شروع کردی۔ یہ کام بیٹھ کر ہوتا ہے، اس لئے ارسلا خان کے والد کو آسان لگا، پھر گردش زمانہ اسے کراچی لے آیا۔ کراچی کے نواحی علاقے جنجال گوٹھ میں دو کمروںکا کچا مکان ڈال لیا، جہاں گھر میں غربت اور افلاس کے ساتھ بچوں کی تعداد بھی بڑھتی رہی۔ یہاں ارسلا خان کسی نہ کسی طرح جوان ہو گیا اور پھر یہیں کا ہو رہا، یہیں اس کی شادی ہوئی اور اب یہیں اس کی نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ وہ اقوام متحدہ کے رجسٹرڈ ان چودہ لاکھ افغانیوں میں سے ہے، جنہیں بالآخر اک دن لوٹ کر وطن واپس جانا ہے، وہ ہر وقت پریشان رہتا ہے کہ اسے افغانستان جانا پڑا تو کیا ہوگا، وہ وہاں کیسے رہے گا اور کیا کرے گا، کہیں بھی کچھ کرنے کیلئے پہلی ضرورت امن وامان کی ہوتی ہے اور وہاں امن ہی تو نہیں ہے۔ مولانا سے ملاقات پاکستان میں رہنے والے ارسلا خانوں کے لئے امید دے رہی تھی، اگرچہ یہ امید ابھی بہت کمزور تھی۔ مولانا کہنے لگے:
’’امریکہ شکست کھا نہیں رہا، شکست کھا چکا ہے، بس دنیا میں اپنی ساکھ بچانے کیلئے ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہا ہے، حقیقت یہی ہے کہ افغانستان امریکیوں کی مٹھی میں دبی ریت ثابت ہو ا ہے، وہ جتنی مضبوطی سے مٹھی بند کرتے ہیں ریت اتنی ہی تیزی سے گرنا شروع ہو جاتی ہے، اس بات کا ادراک امریکہ کو بھی ہے کہ اک دن مٹھی خالی ہو کر رہے گی، وہ چاہتا ہے کہ کوئی ایسی صورت بن جائے کہ ان کی عزت رہ جائے، وہ ویت نام والی سبکی نہیں چاہتے۔‘‘ مولانا نے سر سے ٹوپی اتار کر میز پر رکھی اور سیلانی سے کہنے لگے: ’’اب اطلاعات یہ ہیں کہ امریکہ طالبان سے سنجیدگی سے مذاکرات کررہا ہے۔‘‘
’’اچھا جی!!‘‘ سیلانی کے لہجے میں قدرے حیرت تھی ’’امریکہ اور سنجیدہ…؟ کہیں پڑھا تو تھا کہ امریکہ نے سعودی عرب میں طالبان راہنماؤں سے ملاقات کی ہے، جس کی طالبان نے تردید بھی کردی ہے۔‘‘ مولانا نے سیلانی کی اس بات پر صرف مسکرانے پر اکتفا کیا اور کہنے لگے:
’’اب وہ طالبان سے نہ صرف بات کر رہا ہے، بلکہ غیر مشروط بات چیت کر رہا ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر مولانا نے قدرے توقف کیا اور طلائی رنگت قہوے کی پیالی اٹھا کر کہنے لگے: ’’روسی امریکیوں سے کہیں زیادہ لڑاکا اور بہادر تھے، انہیں سرخ ریچھ غلط نہیں کہا جاتا تھا، چھ ساڑھے چھ فٹ کا سو کلو وزن رکھنے والا روسی فوجی امریکی کمانڈوز سے کہیں زیادہ طاقتور اور لڑاکا تھا، یہ سچ میں ان کے مقابلے میں کچھ نہیں ہیں، جب وہ ان خاک نشینوں کے مقابلے میں نہیں رک سکے تو یہ کہاں سے اور کب تک رکیں گے، آپ کے امت اخبار کے ایڈیٹر اس بارے میں بہت اچھی طرح باخبر ہیں، انہوں نے وہاں اک عرصہ گزارا ہے اور جہاد افغانستان کو بہت قریب سے دیکھ رکھا ہے۔‘‘
مولانا فضل الرحمان خلیل جہاد افغانستان کے سابقون اولون میں سے ہیں، انہوں نے بہاولپور سے افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں کا رخ اس وقت کیا تھا جب ان کی مسیں بھیگیں دو تین برس ہی گزرے تھے۔ وہ ایک مدرسے کے طالب علم اور سولہ سترہ برس کے لڑکے تھے۔ جہاد فی سبیل اللہ کی صدا ان کے کانوں میں پڑی اور خبر ہوئی کہ پڑوس میں بدمست سرخ ریچھ بستیاں تاراج کرتا ہوا کابل تک آپہنچا ہے تو انہوں نے لبیک کہتے ہوئے افغانستان کا رخ کیا، تب سے اب تک ان کا ان پہاڑٖوں اور پہاڑوں کے دامنوں میں رہنے والوں سے رابطہ ہے۔ اگرچہ وقت کے فنکار ہاتھوں نے ان میں بھی کافی تبدیلیاں کر دی ہیں، اب وہ چھریرے بدن کے نوجوان نہیں رہے، ان کے بالوں میں تجربے کی سفیدی نے جگہ بنالی ہے، ناک پر عینک کا بوجھ بھی آگیا ہے، سر پر پاکول اور کلاشن کوف کی جگہ سفید ٹوپی اور بے شکن واسکٹ نے لی لے ہے۔ میدان عمل ان معنوں میں تبدیل ہو چکا ہے کہ اب ان کی بھاگ دوڑ کابل، ہلمند، غزنی کی جگہ اسلام آباد، مظفر آباد، لاہور اور پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں ہوتی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ زندگی قدرے آسان ہے، لیکن اب بھی ان کا شیڈول اتنا سخت ہوتا ہے کہ ساتھ کام کرنے والوں کے چہروں پر دور سے تھکن دکھائی دینے لگتی ہے۔ گولڑہ موڑ اسلام آباد میں جامعہ خالد بن ولید ان کا دفتر بھی ہے اور آفس کیمپ بھی، یہاں وہ عجلت میں نظر آتے ہیں۔ ایک وفد ملنے آرہا ہوتا ہے، دوسرا ملاقات کر رہا ہوتا ہے اور تیسرا انتظارگاہ میں منتظر دکھائی دیتا ہے۔ مولانا اب سیاسی طور پر بھی متحرک ہو گئے ہیں۔ پاکستان دفاع کونسل کے مرکزی راہنماؤں میں سے ہیں۔ سیلانی کی ان سے پرانی یاد اللہ ہے۔ کراچی میں مولانا مراد کے توسط سے ہارون آباد کی مسجد میں مولانا سے طویل ملاقاتیں رہتی تھیں۔ وہ کراچی آتے تو بھنک پڑنے پر سیلانی پہنچ جاتا۔ مولانا مراد ان ملاقاتوں میں سہولت کار کا فریضہ انجام دیتے اور یہاں اسلام آباد میں بھی مولانا مراد نے یہی فریضہ انجام دیا۔ جمعہ کے دن مولانا فضل الرحمان عموماً ملاقاتوں کی چھٹی کرتے ہیں، لیکن انہوں نے سیلانی کو وقت دے دیا اور اب سیلانی جامعہ کے سبزہ زار میں ان کے سامنے تھا۔
سیلانی نے عرض کیا: ’’کیا اس بار مذاکرات اتنے اہم ہیں کہ ان کا سنجیدگی سے ذکر کیا جائے؟‘‘
’’خلیل زاد امریکہ کا بہت سینئر سفارتکار ہے، جو افغانستان پر اچھا مطالعہ رکھتا ہے، خاصا متحرک بندہ ہے، اسے افغان امور کا مشیر بنانے کے فیصلے سے تو یہی لگتا ہے کہ امریکہ سنجیدگی سے بات چیت چاہتا ہے، خلیل زاد نے امریکہ میں ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات بھی کی ہے، دراصل ابھی افغان الیکشن ہونے والے ہیں، امریکہ چاہتا ہے کہ سیز فائر ہو، انتخابات کامیاب ہوں اور یہ طالبان کو راضی کئے بنا ممکن نہیں ہیں، طالبان کی پوزیشن خاصی مستحکم اور مضبوط ہے، ابھی دیکھیں ناں غزنی میں کیا ہوا؟ کس طرح سے طالبان آئے اور قبضہ کرکے بیٹھے رہے۔‘‘
مولانا سے زیادہ طویل نشست نہ ہو سکی۔ سیلانی نے جہاد کشمیر کا ذکر چھیڑ دیا۔ مولانا نے ایک جملے امانتاً کہہ کر بات سمیٹ دی۔ گفتگو جاری تھی کہ مدرسے سے متصل مسجد کے بلند میناروں سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہونے لگی۔ بے شک اللہ کی ذات ہی بلند ہے، جس نے پہاڑوں پر دو عالمی قوتوں کو ہزیمت کا مزہ چکھا دیا۔ آدھی دنیا کا حکمران بدمست سرخ ریچھ کس رعونت سے افغانستان میں پہنچا تھا اور پھر اس ہزیمت سے واپس پلٹا کہ اپنی کچھار بھی نہ بچا سکا۔ روس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، امریکہ نے اپنا کھیل کھیلا، اپنے پتے پھینکنے شروع کئے اور اس کی چالیں اسی پر الٹتی رہیں۔ آج وہ امریکہ جو تکبر سے سعودی شاہوں کی وجہ حکمرانی خود کو بتاتا ہے، افغانستان میں ناکامی کا سبب کسی کو نہیں بتا پا رہا۔ واشنگٹن کے معروف ادارے پی ای ڈبلیو کا سروے بتا رہا ہے کہ سترہ سالہ افغان جنگ میں امریکہ ناکام رہا ہے، امریکی اسے کھلی ناکامی قرار دے رہے ہیں، پی ای ڈبلیو کا حالیہ سروے ٹرمپ انتظامیہ کی آنکھیں کھولنے کیلئے بہت کافی ہے، اب منہ پھٹ اور متکبر ٹرمپ کو اپنی جارحانہ پالیسی بدلنا ہوگی یا پھر افغانستان میں اپنی موجودگی کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی، یہ جنگ امریکہ کے حلق کی ہڈی بن چکی ہے… سیلانی نے اذان ختم ہونے کا انتظار کیا اور مولانا سے اجازت لے کر مسجد کے بلند میناروں کو تکتے ہوئے باہر آگیا اور جاتے جاتے افغان جہاد کے اہم کردار اور سینے میں جانے کیا کچھ رکھنے والے کردار کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post