متعصب ہندو افسر کا قبول اسلام

0

ضیاءالرحمن چترالی
رسول اقدسؐ کے دیدار کا شرف:
میں نے گھر جا کر مولانا صاحب کی کتاب پڑھی۔ محبت، ہمدردی اور سچائی اس کے لفظ لفظ سے پھوٹ رہی تھی۔ مجھے اس کتاب کو پڑھ کر لگا کہ پھر سے میری ملاقات مولانا صاحب سے ہوگئی ہے۔ اس کے بعد بار بار میرے اندر مولانا صاحب سے ملاقات کی ہوک سی اٹھتی رہی۔ اسلام کو پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہوا۔ میں مظفرنگر میں ایک دکان سے قرآن مجید کا ہندی ترجمہ خرید کر لے آیا۔ میں نے فون پر مولانا صاحب سے اس کے پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مولانا صاحب نے کہا: دیکھئے قرآن مجید کو آپ ضرور پڑھیں، مگر صرف اور صرف یہ سمجھ کر پڑھیے کہ میرے مالک کا بھیجا ہوا یہ کلام ہے۔ یہ سوچ کر پڑھیں کہ یہ صرف اور صرف میرے لیے بھیجا ہے۔ اس لیے مالک کا کلام سمجھ کر آپ اشنان کرکے پڑھیں۔ پاک کلام کا پاک نور، پاک اور صاف ستھری حالت میں پڑھنا چاہیے۔
دو ہفتوں میں، میں نے پورا قرآن مجید پڑھ لیا۔ اب میرے مسلمان ہونے کیلئے اندر کے دروازے کھل گئے تھے۔ میں نے پھلت جا کر مولانا صاحب کے سامنے کلمہ پڑھا۔ مولانا صاحب نے میرا نام ’’رام کمار‘‘ سے بدل کر میری خواہش پر محمد حذیفہ رکھا اور بتایا کہ ہمارے نبیؐ اپنے ایک صحابی کو رازداری اور جاسوسی کیلئے بھیجا کرتے تھے، مجھے اس لحاظ سے یہ نام بہت اچھا لگا۔ مولانا صاحب کے مشورے پر میں نے چھٹی لے کر ایک چلہ جماعت میں لگایا، مگر مولانا صاحب نے مجھے سختی سے منع کر دیا تھا کہ آپ کسی جماعت میں اپنا پرانا تعارف نہ کرائیں، نہ اپنے آپ کو نو مسلم کہیں۔ اس لیے کہ سچی بات یہ ہے کہ آپ پیدائشی مسلمان ہیں۔ ہمارے نبیؐ نے سچی خبر دی ہے کہ ہر پیدا ہونے والا اسلامی نظریئے پر پیدا ہوتا ہے، اس لیے ہر مذہب کے بچے کو دفنایا ہی جاتا ہے۔ آپ تو پیدائشی مسلمان ہیں اور ہم سب کے باپ حضرت آدمؑ اس کائنات کے سب سے پہلے مسلمان تھے، اس لیے آپ پشتی مسلمان ہیں۔
جماعت میں میرا وقت اچھا گزرا۔ لوگ مجھے انگریزی پڑھا لکھا، دینی تعلیم سے بالکل کورا مسلمان سمجھ کر نماز وغیرہ یاد کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ گجرات کا ایک نوجوان ہماری جماعت کے امیر تھے۔ میں نے چالیس دن میں پوری نماز اور بہت سی دعائیں یاد کر لیں۔ جماعت سے واپس آیا تو میرا ٹرانسفر الٰہ آباد ہوگیا۔ اپنی الٰہ آباد پوسٹنگ کے دوران میں نے اپنی بیوی کو بہت کچھ بتا دیا۔ وہ بہت فرمانبردار، بھولی بھالی عورت ہے۔ انہوں نے میرے فیصلے کی ذرا بھی مخالفت نہیں کی، بلکہ میرے ساتھ ہر حال میں رہنے کا وعدہ کیا۔ میں نے اس کو بھی کتابیں پڑھوائیں۔ ہماری شادی کو دس سال ہوگئے تھے، مگر کوئی اولاد نہیں تھی۔ میں نے اس کو لالچ دیا، اسلام قبول کرنے سے ہمارا مالک ہم سے خوش ہو جائے گا اور ہمیں اولاد بھی دے گا، کیونکہ اولاد نہ ہونے کے غم میں وہ بہت گھلتی جا رہی تھی۔ وہ اس بات سے بہت خوش ہوگئی۔
میں نے ایک مدرسے میں لے جا کر اس کو کلمہ پڑھوایا۔ میں نے اپنے رب تعالیٰ سے بہت دعا کی کہ میرے رب میں نے آپ کے بھروسے پر اس سے وعدہ کر لیا ہے، آپ میرے بھروسے کی لاج رکھیے اور اس کو چاہے ایک ہی ہو، اولاد دیجئے، خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ گیارہ سال کے بعد ایک بیٹا اور تین سال کے بعد ایک بیٹی بھی ہوگئی۔
میں نے الٰہ آباد پوسٹنگ کے دوران اپنے قبول اسلام کا اعلان کر دیا اور قانونی کارروائی ہائی کورٹ کے ایک وکیل کے ذریعے کرائی، جس کیلئے مجھے اپنے محکمے سے اجازت لینی ضروری تھی۔ میں نے اس کی درخواست کی۔ ایک دویدی جی ہمارے باس تھے، انہوں نے مجھے بہت سختی سے روکا اور دھمکی دی کہ اگر آپ نے یہ فیصلہ کیا تو میں آپ کو معطل کردوں گا۔ میں نے ان سے صاف طور پر کہہ دیا کہ یہ فیصلہ تو میں کر چکا ہوں، اب واپسی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آپ کو جو کچھ کرنا ہو کردیں۔ انہوں نے مجھے معطل کردیا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور تین چلے کیلئے جماعت میں چلا گیا، بنگلور اور میسور میں میرا وقت بہت اچھا گزرا۔ مجھے اس وقت تین بار حضور اقدسؐ کی خواب میں زیارت ہوئی، جس کی مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ واپس آیا تو خدا نے میرے تمام افسروں کو میرے حق میں نرم کر دیا۔
لکھنؤ میں ایک مسلمان افسر جو بہت بڑی پوسٹ پر ہیں۔ میں نے ان سے جا کر اپنا پورا حال سنایا، وہ پھلت جا چکے تھے اور مولانا صاحب کو جانتے تھے۔ انہوں نے میری مدد کی اور مجھے ملازمت پر بحال کر دیا گیا۔ اب میں اپنی فیملی پر محنت کر ر ہا ہوں۔ (بحوالہ: ماہنامہ ارمغان، پھلت انڈیا)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More