سید ارتضی علی کرمانی
حضرت سید غلام عباس شاہ صاحب (سجادہ نشین مکھڈ شریف)
مکھڈ شریف کے خاندان قادریہ کے مشہور سجادہ نشین حضرت غلام عباس شاہ صاحبؒ حسنی جیلانی کے دو خطوط دربار عالیہ گولڑہ شریف میں محفوظ ہیں، جو حضرت کے ساتھ ان کے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ایک پر 3 مئی 1913ء کی تاریخ درج ہے۔ اس میں حضرت صاحب کو ایک مناظرہ موضع جنڈ ضلع کیمل پور میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’1,14 ساڑھ کو وہاں اہل بدعت اور اہل سنت والجماعت کے درمیان خلافت کے موضوع پر بحث ہونے والی ہے۔ اہل سنت کی طرف سے مناظر مولوی سلطان محمود گنجوی مدرس ڈیرہ غازی خان ہیں اور اہل بدعت کی طرف سے مخدوم صاحب بلوٹ والے مہتم ہیں۔ نیاز مند کو بھی اہل سنت کی طرف سے مجبور کیا جا رہا ہے کہ اس بحث میں شرکت کروں۔ فقیر چاہتا ہے کہ جناب والا بھی شریک ہوں اور سب اہل سنت کی رائے بھی یہی ہے، لیکن اس خط و کتابت کا علم محض فقیر تک محدود رہے۔‘‘
اسی قسم کا ایک اور خط 6 مئی 1912ء میں بھی ارسال کیا۔ جس میں حضرت صاحبؒ سے پر زور استدعا کی گئی کہ اس مناظرے میں ضرور شرکت فرمائیں۔ مزید یہ بھی تحریر کیا گیا کہ اس مناظرے میں حافظ پیر سید جماعت علی شاہ بھی شرکت فرمائیں گے۔ ان خطوط سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت پیر صاحبؒ فرقہ وارانہ مناظرات کو قطعی طور پر پسند نہیں فرماتے تھے، لیکن سجادہ نشین مکھڈ شریف کے پر زور اصرار اور حالات کی نزاکت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آپ نے آمادگی کا اظہار فرمایا۔ مگر حکومت وقت نے اس مناظرے کی ممانعت کر دی۔
انہی ایام میں جب آپؒ نے اس مناظرہ میں اہل سنت والجماعت کی جانب سے شرکت پر آمادگی ظاہر فرمائی تو مخالفین نے بطور طعنہ حضرت صاحبؒ کی جانب اشارہ کر کے کہا تھا کہ ’’کاٹھ دی کنی نئیں، تے سید سنی نئیں‘‘
یعنی جس طرح لکڑی کی ہنڈیا نہیں ہوسکتی، اسی طرح سید سنی نہیں ہو سکتا۔
حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ نے اس چیلنج کو قبول فرمایا۔ معترضین کو اصل میں آپ کے متعلق معلومات ہی کم ہوں گی، ورنہ آپ کو جاننے والے جانتے تھے کہ آپ کا رتبہ کس قدر عالیشان ہے اور آپ پر طعنہ زنی کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔ آپ نے جب اس تحدی کو قبول فرمایا تو دنیا نے دیکھا کہ آپ نے لکڑی کی ہنڈیا بنوا کر ایک مجمع کے سامنے جس میں اہل سنت والجماعت اور مخالف لوگ موجود تھے، اس ہنڈیا کو آگ پر چڑھا کر اس میں چاول پکوا کر انہی لوگوں کو کھلا دیئے، مبادا وہ یقین ہی نہ کریں۔
حضرت خواجہ محمد دین صاحبؒ سیال شریف (وصال 1909ئ)
حضرت خواجہ محمد دین صاحبؒ آپ کے مرشد صاحب کے خلف الرشید تھے۔ آپؒ کو ثانی صاحب سیالوی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بزرگوں کو آپس میں پیار و محبت کا رابطہ اوائل سے ہی استوار تھا۔
جیسا کہ آپ اس سے قبل پڑھ چکے ہیں کہ حضرت صاحبؒ نے تونسہ شریف کا سفر محض ثانی سیالوی کے ارشاد پر ہی کیا تھا۔ آپ ہی کے کہنے پر حضرت صاحبؒ نے ہر سال پاک پتن شریف میں عرس میں شرکت فرمانا شروع کی اور آپ ہی کے فرمان کی تعمیل میں حضرت صاحب نے جناب دیوان غیاث الدین صاحب اجمیری کی معاونت و تائید میں بمقام پشاور سرحدی علماء کے ساتھ سماع کے موضوع پر مناظرہ فرمایا تھا۔
آپ کو جب معلوم ہوا کہ حضرت ثانی سیالوی صاحب کی طبیعت ازحد خراب ہے تو فوری طور پر حاضر ہوئے، بلکہ اکثر حاضر ہوتے اور مزاج پرسی کرتے۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنے صاحبزادہ صاحب حضرت بابوجی سرکار کو خط تحریر فرمایا کہ
’’شب جمعہ قریب دو بجے خوشاب اتر کر اسی وقت دریا عبور کر کے آرام کیا۔ صبح سویرے وہاں نماز پڑھ کر بگھی میں بیٹھ کر فوراً چھاونی پہنچے۔ حضرت صاحب اس قدر خوش ہوئے کہ تحریر سے باہر ہے۔ آپ کو کئی روز سے سخت انتظار تھا، ہر ایک شخص اس انتظار کی عجیب کیفیت بیان کررہا تھا۔ بالخصوص میرے اشعار فارضیہ
بھلدے نئیں اوہ بول مٹھڑے ڈھول دے
بول سانول یار روہی رول دے
نہایت رقت طاری کئے ہوئے تھے۔ پہنچتے ہی میں نے انتظام سیال شریف لے جانے کا کیا۔ اس روز آپ کو لب دریا خوشاب سے کشتی پر سوار کیا۔ علی الصبح بروز شنبہ سیال شریف پہنچنے پر سب کو ازحد خوشی ہوئی اور دعائیں دینے لگے۔ حضرت صاحب کو ضعف ازحد ہے، غذا نہیں، مجھ کو ایک لحظہ آنکھوں سے غائب نہیں چاہتے۔‘‘
آپ کی وفات کے بعد جو اشعار حضرت صاحبؒ نے ابن فارض مکیؒ کے دو فراقیہ اشعار کی لے اور تضمین میں اسی طرح ثبت فرمایا کہ آج بھی ان کی غم انگیز و پردرد اداسی، بے بسی اور بے چارگی دلوں میں پہچان پیدا کردیتی ہے۔ ملاخطہ کیجئے۔
سار باناں! مہرباناں! راہیا
شالا جیویں خیر تھیوری ماہیا
اکھیں جا اونہاں پیاریاں دلجانیاں
گوڑھے نیناں والیاں مستانیاں
لاپریتان دے کر لارے او گئے
اوہ گئے او دل دے پیارے اوگئے
سارا عالم صدقے آکھاں بول توں
داراں سر میں اس انو کھڑے ڈھول توں
بن تساڈے ہک گھڑی سو سال دی
بہہ ٹھکانے پئی تساڈے بھال دی
اک وچھوڑا دوجے طعنے جگ دے
پیراں تھیں سر تک المیے اگ دے
چشماں فرش و چھاواں خاطر ڈھول دی
مرحبا یا مرحبا پئی بول دی
بھلدے نئیں او بول مٹھڑے ڈھول دے
بول سانول یار روہی رول دے
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post