امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفانؓ فرماتے ہیں:
’’ میرے دوست! کوئی بھی پریشانی خواہ وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو کسی انسان پر ہمیشہ نہیں رہتی۔ سو اگر تم پر کوئی پریشانی آئے تو اس کے سامنے گھنٹے مت ٹیکو اور کتنے ہی قدم کیوں نہ لڑ کھڑائیں، شکوہ شکایت مت کرو۔ کتنے ہی باعزت لوگ ایسے ہیں کہ مصائب نے جن کو تھکا ڈالا، مگر انہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ وہ مسائل خود بخود ختم ہوگئے اور ماند پڑ گئے۔ میں نے ہمیشہ اپنے نفس کو روز و شب کی تکالیف پر امادہ کیا، سو جب ان مصائب نے میری ثابت قدمی کو دیکھا تو وہ خود ڈگمگا گئے۔
سعد اسدی فرماتے ہیں: ’’ کسی بھی حال کے اثرات باقی نہیں رہتے، نہ فقر و فاقہ باقی رہتا ہے اور نہ خوشحالی۔ جیسے خوشیاں وافر مقدار میں ہونے کے باوجود ختم ہوجاتی ہیں، اسی طرح وہ حالات بھی ہمیشہ نہیں رہیں گے جو تمہیں غمگین کرتے ہیں۔ سو جو کچھ تمہارے ہاتھ سے چلا گیا، اس کے پیچھے خود کو تباہ مت کرو اور نہ ہی غموں کے سبب افسوس و ملامت کے ساتھ بیٹھو۔‘‘
ایک شاعر کہتا ہے: ’’ مشکلات پڑنے پر میرا دل غم کے مارے تنگ ہونے لگتا ہے، لیکن کبھی کبھی میرے لیے غموں میں ہی خیر ہوتی ہے اور بہت سے دن ایسے ہیں جن کی ابتداء تو غموں سے ہوتی ہے، لیکن ان کی انتہا خوشگواری اور بہتری پر ہوتی ہے۔ میں جب بھی کسی پریشانی پر تنگ دل ہوا تو فراوانی اس کے پیچھے یا تو آچکی ہوتی ہے یا آنے والی ہوتی ہے۔‘‘
دوسرا شاعر کہتا ہے: ’’ میرا جب بھی کسی پریشانی سے سابقہ پڑا تو مجھے ہمیشہ یقین رہا کہ اس سے چھٹکارے کی کوئی نہ کوئی صورت ہے۔‘‘
ایک اور شاعر کہتا ہے: ’’اکثر اوقات انسان بعض مصیبتوں کو بہت بڑی اور دائمی مصیبت سمجھتا ہے، حالانکہ اس کا زوال اس قدر آسان ہوتا ہے جیسے بندھی ہوئی رسی کا کھولنا۔‘‘
ابراہیم صولی کہتے ہیں: ’’بہت سی پریشانیاں ایسی ہوتی ہیں، جن سے آدمی دلبرداشتہ ہوجاتا ہے، حالانکہ حق تعالیٰ نے اس سے چھٹکارے کی صورت رکھی ہوتی ہے۔ پریشانی اس پر اپنا اپنا گھیرا تنگ کرکے بالآخر مصیبت ٹل جاتی ہے، حالانکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ یہ مصیبت ختم نہیں ہوگی۔‘‘
دوسرا شاعر کہتا ہے: ’’انسان بالکل مایوس اور شکستہ حال ہوتا ہے کہ اچانک رب تعالیٰ خوشی کو لے آتے ہیں، جس سے وہ خوش ہوجاتا ہے اور بہت سے کاموں کو تم ناممکنات میں سے شمار کرتے ہو، مگر حق تعالیٰ ان سے بھی چھٹکارے کی صورت نکال دیتے ہیں۔‘‘
ابو تمام الطائی فرماتے ہیں: ’’ ہر تنگی اپنی انتہا پر پہنچنے کے بعد آسانی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔‘‘
ابن معتز کہتے ہیں: ’’ ہر غم سے بالآخر نجات مل ہی جاتی ہے اور کوئی بھی حال مستقل رہنے والا نہیں ہے۔‘‘
قبیلہ قریش کا ایک آدمی کہتا ہے: ’’ غموں کو اپنے اوپر سوار مت کرو، کیوں کہ جب کسی بھی چیز کو دوام نہیں تو تمہارے غم بھی باقی نہیں رہیں گے۔ شاید کہ رب تعالیٰ اس کے بعد تمہاری طرف نظر رحمت فرما دیں۔‘‘
ابن الاعرابی کہتے ہیں: ’’ ہمت باندھے رکھو اور مصائب کو حتی الامکان سہل جانو، امید ہے کہ تم اس سے سرور حاصل کرو گے، کیوں کہ کاموں کا مدار جس کے ہاتھ میں ہے، وہ عنقریب مصائب و پریشانی میں بھی بھلائی کی بہت سی صورتیں پیدا کریں گے۔‘‘
ہدبۃ بن خشرم کہتے ہیں: ’’ ہو سکتا ہے جس غم میں تم مبتلا ہو خوشی اس کے پیچھے ہی تمہاری منتظر ہو، جس سے خوفزدہ شخص مطمئن ہوجائے گا، قیدی آزاد ہوجائے گا اور گھر بار سے دور اجنبی اپنے گھر والوں سے آ ملے گا۔‘‘ ایک اور شاعر کہتا ہے: ’’ راحت دروازہ ہے اور اس کی چابی صبر کرنا ہے اور ہر تنگی کے بعد آسانی ہے۔ زمانے کی گردش کبھی ایک سی نہیں رہتی، بلکہ پے در پے واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور مصیبت کی مشقتیں اور برائی کی کلفت کا داغ پر سکون راتیں دھو دیتی ہیں۔ اس کی حالت ایک سی کیسے رہ سکتی ہے جس کی طبیعت ہی سیمابی ہو کہ اس کو نفع و نقصان جیسی متضاد کیفیتیں پیش آتی رہتی ہوں۔‘‘
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post