حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو دین کی طرف مائل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی، ہر ہر طریقہ سے انہیں سمجھایا، فرمایا:
’’اے میری قوم! میں تمہارا خیر خواہ ہوں، تم کو برے دن سے ڈراتا ہوں، اے قوم! میری بات مان لو، میں تمہارے فائدہ کے لیے کہتا ہوں، اس میں میرا کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ میری کوئی غرض ہے، اے قوم! خدا سے ڈرو، اس کی عبادت کرو، وہ تمہارے تمام گناہوں کو معاف کردے گا اور تمہارے گھر میں تمہارے رزق میں اور تمہاری اولاد میں برکت عطا فرمائے گا۔ اے قوم! تم اپنے پیدا کرنے والے کو بھول گئے، تم کو اور تمہارے چاروں طرف عجائبات اور دلکش مناظر کس نے بنائے؟ ان کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ ان کی طرف کیوں نہیں دیکھتے اور کیوں نہیں غور کرتے، آسمان کو دیکھو، زمین کو دیکھو، چاند، سورج، تاروں کو دیکھو، جس پر نظر ڈالو گے، اس کی قدرت کے کھیل نظر آئیں گے۔
یہ آسمان کس نے بنایا ہے، آسمان کو چاند، سورج، تاروں سے کس نے رونق بخشی؟ زمین جس پر تم چلتے پھرتے ہو اور آرام کرتے ہو، یہ کس نے بنائی؟ تم کو کس نے پیدا کیا اور کون تمہیں رزق دیتا ہے؟ تم بیمار ہوتے ہو تو کون تمہیں شفا دیتا ہے؟ بارش کس کے حکم سے ہوتی ہے؟ تم پر آئی ہوئی مصیبت کون ٹالتا ہے؟‘‘
حضرت نوحؑ نے بے شمار طریقوں سے اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش فرمائی، لیکن خدا تعالیٰ جس کو گمراہ کرے، اس کو پھر کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اس وجہ سے قوم نے حضرت نوحؑ کی کوئی بات نہیں مانی اور نہ ایمان لائے، وہ حضرت نوحؑ کی بات کو سنتے تو نہ تھے، مانتے کیسے اور ایمان کیسے لاتے؟ معلوم ہوا کہ صراط مستقیم پر چلانے والا صرف خدا تعالیٰ ہی ہے، اسی سے ہدایت مانگنی چاہئے۔
رب کا کھلا در نہ چھوڑیں
احمد بن ابی غالبؒ چھٹی صدی ہجری کے بزرگ ہیں۔ لوگ ان کے پاس دعا کے لئے عموماً حاضر ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ کوئی صاحب ان کی خدمت میں آئے اور کسی چیز کے متعلق کہا: ’’آپ فلاں صاحب سے میرے لئے وہ چیز مانگ لیجئے۔‘‘
احمدؒ فرمانے لگے ’’میرے بھائی! میرے ساتھ کھڑے ہو جایئے۔ دونوں دو رکعت نماز پڑھ کررب تعالیٰ ہی سے کیوں نہ مانگ لیں،کھلا در چھوڑ کر بند دروازے کا رخ کیوں کیا جائے‘‘۔ (ذیل طبقات الحنابلۃ 224/1)
مشہور و معروف تابعی حضرت عطاء بن ابی رباحؒ فرماتے ہیں ایک مرتبہ حضرت طائوسؒ نے مجھے ایک حکمران کے پاس جاتے ہوئے دیکھ لیا تو آپ نے مجھے ارشاد فرمایا:
اے عطائ! میری بات غور سے سنو، اپنی کوئی ضرورت ایسے شخص کے سامنے پیش نہ کرو، جس نے اپنے دورازے بند کر رکھے ہوں اور اپنے دروازوں پر دربانوں کو بٹھا رکھا ہو، بلکہ اپنی ہر ضرورت اس کے سامنے پیش کرو، جس نے ہر دم اپنے دروازے اپنے بندوں کیلئے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔ وہ تم سے مطالبہ کرتا ہے کہ مجھ سے مانگو اور یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ میں اپنے بندوں کی دعا کو قبول کروں گا۔ (صور من حیاۃ التابعین ۲۹۶)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post