جب ہندو مصنف راج پال نے نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کتاب لکھی تو اس کی اشاعت سے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ ہر مسلمان کے دل میں ناموس رسالتؐ پر قربان ہونے کی امنگ بھر گئی۔ انگریزوں نے مسلمانوں کے جذبات کے پیش نظر راج پال کے خلاف مقدمہ دائر کیا، لیکن عدالت نے اسے بری کر دیا۔
غازی علم دین ان تمام حالات سے بے خبر تھے۔ ایک روز حسب معلوم کام پر گئے ہوئے تھے۔ غروب آفتاب کے بعد گھر واپس جا رہے تھے، تو دلی دروازے میں لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ ایک جوان کو تقریر کرتے دیکھا تو رکے۔ کچھ دیر کھڑے سنتے رہے، لیکن کوئی بات پلے نہ پڑی تو قریب کھڑے ایک صاحب سے انہوں نے دریافت کیا کہ کیا مسئلہ ہے؟ تو انہوں نے علم دین کو بتایا کہ ہندو راجپال نے ہمارے نبی کریمؐ کے خلاف کتاب چھاپی ہے۔ ان کے خلاف تقریر ہو رہی ہے۔ وہ دیر تک تقریر سنتے رہے، علم دین کی زندگی کے تیور ہی بدل گئے، پھر ایک دفعہ غازی علم دین نے خواب دیکھا۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں، علم دین جلدی کرو، راجپال تمہارے ہی ہاتھوں قتل ہوگا۔ قدرت نے یہ سعادت تمہارے ہی مقدر میں لکھی ہے۔
غازی علم دین نے صبح ہوتے ہی تیز دھار چھری خرید لی اور سیدھا راجپال کی دکان پر پہنچے اور پوچھا راج پال کہاں ہے؟ اس نے کہا میں ہی راجپال ہوں۔ غازی علم دین نے وہی چھری اس کے پیٹ میں گھونپ دی۔ اس کے منہ سے ہائے کی آواز نکلی اور وہ فرش پر اوندھے منہ گر گیا۔ راج پال کو قتل کرنے کے بعد غازی بڑے اطمینان سے قریبی نل پر گئے اور چھری کو اس ملعون کے ناپاک خون سے صاف کیا۔
ابھی پانی پینے ہی والے تھے کہ ایک شور ان کے کانوں میں پڑا۔ راج پال قتل ہوگیا، قاتل کو پکڑو، جانے نہ پائے۔ شور مچانے والے سب ہندو تھے، ان کے ہاتھوں میں برچھیاں اور لاٹھیاں تھیں، لیکن وہ سب غازی کے قریب آکر خود بخود رک گئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر غازی علم دین مسکرا دیئے۔
غازی علم دین کے والد گرامی طالع مند نے اپنے بیٹے کے اس کارنامے پر یوں اظہار مسرت فرمایا۔ اگر یہ کام میرا بیٹا نہ کر سکتا تو مجھ دکھ ہوتا۔ والدہ محترمہ نے فرمایا: اگر میرے ساتھ لڑکے ہوتے اور وہ اس طرح تحفظ ناموس رسالت کے لیے قربان ہوجاتے تو میں زیادہ خوش ہوتی۔
غازی نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ راجپال کی لاش میو اسپتال بھجوا دی گئی۔ اس کے قتل کی خبر آناً فاناً پورے شہر میں پھیل گئی۔ رات گئے تک اخبارات کے ضمیمے فروخت ہوتے رہے۔ ہندو اسپتال کے باہر جمع ہوگئے۔ مسلمان بھی پولیس اسٹیشن کے باہر غازی علم دین کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ مسلمان اخبارات کا مطالبہ تھا کہ غازی علم دین کو رہا کر دیا جائے، کیونکہ اس نے حرمت رسولؐ کی پاسداری کی ہے۔
غازی علم دین پر مقدمہ چلتا رہا، ہر عدالت انہیں سزائے موت کا حکم سنایا۔ علامہ اقبال اور محمد علی جناح نے انہیں بچانے کی سر توڑ کوشش کی۔ لیکن سزائے موت کا حکم برقرار رہا۔ ایک دفعہ کسی نے غازی سے کہا کہ تم اقبال قتل نہ کرو، تو آپ نے جواب دیا، تم لوگ مجھے جام شہادت سے محروم رکھنا چاہتے ہو، میں تو ہر جگہ یہ اعلان کروں گا کہ راجپال کو میں نے قتل کیا ہے۔ ایک جان کی کیا بات ہے، اگر مجھے دس جانیں مل جائیں تو میں وہ بھی ناموس رسالت کی پاسداری پر قربان کروں گا۔ یہ قتل میرے نامہ اعمال کا اعزاز ہے اور میں اس اعزاز سے محروم ہو کر حضورؐ کے دربار میں حاضر نہیں ہو سکتا۔
میانوالی شہر میں ایک مجذرب رہتا تھا، جو کسی سے بھی بات نہیں کرتا تھا، جب غازی علم دین میانوالی میں منتقل ہوئے۔ اس رات وہ مجذب گلی کوچوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور بلند آواز میں نعرے لگاتا لوگو! تمہیں مبارک ہو، تمہارے پاس ایک عاشق رسولؐ آرہا ہے۔ وہ رات اس مجذوب نے یوں گزار دی، پھر غائب ہو گیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post