ترچھے ہاتھ کی سیدھی کمائی

0

بات نئی نہیں اور کراچی کے شہریوں کے لئے تو معمول کا حصہ بن چکی ہے۔ گزشتہ طویل کالم بھی اسی حوالے سے تھا، مگر مدعا مکمل نہ ہو سکا تھا۔ کراچی کی بیشتر سڑکوں، چوراہوں پر حافظ جی پولیس کی جو لوٹ مار دیکھ رہے ہیں، وہ کسی لمحۂ فکریہ سے کم نہیں، بالخصوص صبح دفاتر اور تعلیمی اداروں کو جاتے ہوئے لوگ اور طالب علموں کو روک کر ان سے پیسے جمع کرنے کی پولیس مہم اپنے جنونی عروج پر ہے اور شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جا بجا پولیس اور ٹریفک پولیس کے ناکے۔ ایک چوراہے، ایک سگنل پر بیک وقت آٹھ سے دس دس پولیس اہل کاروں کا جمگھٹ موٹر سائیکل سواروں کو گھیرے نظرآتا ہے، بیشتر کو ہیلمٹ نہ پہننے پر نقد اور دستی جرمانے، ہیلمٹ ہو تو کاغذات کی طلبی، کاغذات موجود ہوں تو لائسنس کا مطالبہ اور اگر لائسنس بھی نکل آئے توگھاگ پولیس اہل کار موٹر سائیکل پر اِدھر اُدھر نظر مارکر یہ جواز تو تراش ہی لیتے ہیں کہ انڈیکیٹر ٹوٹا ہوا ہے یا اس کا بلب غائب ہے، یوں چالان سے دھمکا کر ترچھے ہاتھ کی سیدھی کمائی کا ہر چوک، چوراہے پر راج ہے۔ خدا جانے پولیس افسران اور ان کے ماتحت کراچی کو کب تک دبئی سمجھتے رہیں گے؟
شہرنا پرساں میں ٹریفک کی لاقانونیت ختم کرنے کے لئے آئی جی اور ڈی آئی جیز کی سطح پر جن اقدامات کا اعلان کیا گیا، ان میں سے چند ایک کے علاوہ سب مال بنانے کے مجرب نسخے ہیں، اس حوالے سے حافظ جی نے اپنے پچھلے کالم میںبھی ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ کی خدمت میں کچھ گزارشات رکھی تھیں، مگر نقارخانے میں طوطی والی مثل صادق آئی۔ خیر یہ نئی بات نہیں، پولیس ہو یا میونسپل کارپوریشن، تمام ہی انتظامی افسران ایسی مہمات شروع کرنے کے بعد سسٹم دوسرے اور تیسرے درجے کے ذمہ داروں کے سپرد کرکے خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ اس سب کے پیچھے کیا معاملات طے ہوتے ہیں، یہاں اس حوالے سے وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں۔
آئی جی کراچی امیر شیخ اکثر و بیشتر گشتی چھاپوں کا اہتمام کرتے ہیں، ان کے ہمراہ ٹی وی چینلز کے رپوٹرز، کیمرہ مین اور اخباری رپورٹرز ہوتے ہیں، وہ نہ ہوں تو تشہیری مہم کامیاب کیسے ہو؟ صحافی ساتھ نہ ہوں تو کارروائی کی رپورٹ لکھوا دی جاتی ہے۔ ایک روز قبل بھی آئی جی کراچی نے ایسی ہی کارروائی کی، جو اخبارات میں رپورٹ ہوئی، بڑے صاحب صبح کے اوقات میں سہراب گوٹھ تھانے پہنچے، لاک اپ میں موجود ملزمان کی شکایات سنیں، انہیں اپنی جیب سے ناشتہ کرایا، باوردی اور چست چار اہل کاروں کو انعامات سے نوازا، جب کہ بیرک کی صفائی نہ ہونے پر ہیڈ محرر کو معطل کرنے کا حکم صادر کیا۔ سپر ہائی وے پر ٹریفک کی بد انتظامی اور ون وے کی خلاف ورزی نہ روکنے پر ٹریفک پولیس گلزار ہجری کے سیکشن افسر کو معطل کیا۔ گشت پر موجود اہل کاروں کو بھی انعام دیا۔ امیر شیخ کو اس دورے کے دوران کہیں بھی کوئی پولیس اہل کار عوام کے ساتھ زیادتی کرتا نظر نہیں آیا، جب کہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ پولیس افسران ہوں یا دوسرے محکموں کے ذمہ داران، حتیٰ کہ جج صاحبان بھی روز صبح شام انہی سڑکوں سے گزرتے ہیں، نہ جانے انہیں وہ سب کچھ کیوں نظر نہیں آتا، جو ایک عام شہری کو نظر آتا ہے۔ ایک روز قبل ہی حافظ جی نے قلندریہ پارک، سخی حسن ناگن چورنگی، براستہ سہراب گوٹھ حیدر آباد کا سفرکیا، سخی حسن قبرستان کے اختتام پر موجود تعلیمی انسٹی ٹیوشنز سے متصل پولیس کا پورا دستہ گاڑیوں کو روک کر پوچھ گچھ کے بہانے ترچھے ہاتھ کی کمائی میں مصروف تھا، اس کے چند میٹر بعد سرینا مارکیٹ کے سامنے پل کے عین نیچے چورنگی پر آٹھ سے دس ٹریفک اہل کار جن میں چند ایک افسران بھی تھے، موٹر سائیکل سواروں کو روک روک کر قوانین کی فروخت کا کام کر رہے تھے، صبح دفاتر اور تعلیمی اداروں کو پہنچنے کی جلدی میں بیشتر لوگ پولیس کی پوچھ گچھ اور چالان کی علتوں سے بچنے کے لئے سرکاری اہل کاروں کی ترچھی وصولیوں کا باآسانی چارہ بنتے ہیں۔ یہ کام ایک دو جگہ نہیں، بلکہ پورے شہر کے ہر چوک، چوراہے پر کھلے عام ہوتا ہے، مگر اعلیٰ پولیس افسران گشت پر نکلتے ہیں تو انہیں پولیس اہل کار چست، چاق وچوبند اور فرض شناس ملتے ہیں، جس پر انہیںانعامات کا حقدار تو قرار دینا ہی پڑتا ہے۔
بعض صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں ٹریفک قوانین کے حوالے سے سندھ حکومت نے پولیس اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو فری ہینڈ دے دیا ہے، اب اتنا بڑا قدم بھی فری ہینڈ دینے والوں نے مالی منفعت کے بنا تو نہیں اٹھایا ہوگا؟ کراچی میں ہر سال اچانک سے ہیلمٹ مہم شروع کر دی جاتی ہے، یہ دیکھے بنا کہ ان دنوں لوگ ہیلمٹ خریدنے کی سکت بھی رکھتے ہیں کہ نہیں، کراچی میں پندرہ لاکھ سے زائد موٹر سائیکل سوار ہیں، جن کی اکثریت ملازمت پیشہ ہے اور ملاز مت پیشہ افراد کو مقررہ ٹائم میں لگی بندھی تنخواہ ملتی ہے، ضروری نہیں کہ وہ اعلان ہوتے ہی ہیلمٹ خریدنے چل پڑیں۔ ہیلمٹ کے حکم نامے میں مہلت کا کوئی تذکرہ نہیں، طرفہ یہ کہ حکومتی اور انتظامی طور پرہیلمٹ فروخت کرنے والوں کو کبھی قاعدے قانون میں نہیں لایا گیا، جو اس قسم کا اعلان ہوتے ہی ہیلمٹ کی قیمتوں میں کئی سو گنا خود ساختہ اضافہ کر دیتے ہیں۔ اب بھی اطلاع ہے کہ مارکیٹ سے ہیلمٹ بلیک مارکیٹنگ کے لئے شارٹ کردیئے گئے ہیں اور جہاں ہیں وہاں آٹھ سو ہزار روپے والا ہیلمٹ پولیس چیف کے اعلان کے بعد دو ہزار سے کم میں دستیاب نہیں۔ آئی جی کراچی بتائیں اس لاقانونیت کی روک تھام کے لئے انہوں نے کیا احکامات صادر کئے اور کتنے دکانداروں کو بلیک مارکیٹنگ اور اضافی قیمتیں وصول کرتے ہوئے گرفتار کیا؟ رہی بات ڈرائیونگ لائسنس کی تو کیا آئی جی صاحب نے کبھی ڈرائیونگ لائسنس سینٹرز پر چھاپا مارا اور دیکھا کہ ان کا یہ محکمہ کس طرح کماؤ پوت بنا عوام کو چونا لگا رہا ہے؟ بلا جواز اعتراضات اور رشوتوں سے تنگ بیشتر شہری ڈرائیونگ لائسنس کے بنا گاڑیاں اسی لئے چلاتے ہیں کہ وہ منہ مانگی رشوتوں کا بندوبست کرنے سے قاصر ہیں اور اگر اس قابل ہیں بھی تو رشوتیںکیوں دیں جناب؟
ون وے کی خلاف ورزی کی ایک بڑی وجہ تجاوزات ہیں، جو بڑی اور مصروف شاہراہوں کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ موٹر مکینک، ہوٹل والے، شربت والے بن کباب اور ہر قسم کے پتھارے دار پولیس کو بھتہ دے کر سڑکوں پر قبضہ جماتے ہیں، کچھ مقامات کی نشاندہی گزشتہ کالم میں بھی کی گئی تھی، جہاں سڑکوں کے دو دو ٹریک قبضہ مافیا کی دسترس میں ہیں۔ شہر کی معروف شاہراہوں سے مصروف اوقات میں گزرنا انہی رکاوٹوں کے سبب جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کراچی کے قلب صدر ایمپریس مارکیٹ اور ریگل چوک کے اطراف کی صورت حال سے کیا پولیس افسران ناواقف ہیں؟ ان تمام جگہوں پر قبضہ مافیا کا کاروبار پولیس کے تعاون سے شاہراہوں کو ٹریفک کے لئے تنگ اور قابضین کے لئے فعال کئے ہوئے ہے۔ حبیب بینک چورنگی، شیر شاہ اور حب ریور روڈ کی حالت بھی قابل رحم ہے۔ شام کے اوقات میں تین ہٹی سے کریم آباد براستہ لیاقت آباد پہنچا دل گردے کا کام ہے۔ ایسے میں تڑپتے مریضوں کا اسپتالوں تک پہنچنا بھی محال ہوتا ہے۔ سڑکوں پر جابجا رکاوٹیں، سفر کو ہی دشوار گزار نہیں بنا رہیں، بلکہ ٹریفک کا شور اور ماحولیاتی آلودگی بھی شہریوں کے لئے زہر قاتل ہے۔ ڈی آئی جی ہائی وے ساؤتھ نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے گزشتہ دنوں پیٹرول پمپ والوں کو حکم دیا تھا کہ جو موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ لگا کر نہ آئے، اسے پیٹرول فروخت نہ کیا جائے۔ کیا کسی پمپ مالک سے پولیس اس حکم نامے کی تعمیل کرا سکی؟ اس طرح کے اعلانات جاری کرنا اور ان پر عمل درآمد نہ کرا سکنا کیا پولیس افسران کی بے توقیری کے زمرے میں نہیں آتا؟
گستاخی معاف! حافظ جی ڈی آئی جی ہائی وے ساؤتھ سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا انہوں نے ہائی وے پر اپنے ریجن سے ہیلمٹ نہ لگانے کے سوا باقی تمام لاقانونیت ختم کرا دی ہے؟ کیا انہوں نے ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ کا خاتمہ کردیا ہے؟ یہاں تو شہر کے ہر چوراہے پر بوتلوں میں غیر معیاری اسمگل شدہ ایرانی پیٹرول فروخت ہو رہا ہے، جس پر پولیس فی لیٹر خراج وصول کر رہی ہے۔ یہ غیر معیاری پیٹرول نہ صرف گاڑیوں کے انجنوں کے لئے نقصان دہ ہے، بلکہ اس کا خارج ہونے والا دھواں انسانی پھیپھڑوں کے لئے بھی سخت نقصان دہ ہے۔ غیر معیاری ایرانی پیٹرول کے حوالے سے شک کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی جب حافظ جی کسی شاہراہ پر پولیس موبائل کے عقب میں ہی ایرانی پیٹرول فروخت ہوتا دیکھتے ہیں۔ کہیں ساؤتھ پولیس کا حکم نامہ پیٹرول پمپوں سے بغیر ہیلمٹ پیٹرول کی فروخت روک کر اسی غیر معیاری اسمگل شدہ ایرانی پیٹرول کی فروخت میں مزید کمیشن کا طلب گار تو نہیں؟ کیا آئی جی امیر شیخ حافظ جی کے سوالوں کے جوابات اپنے ماتحت ڈی آئی جیز سے لے سکتے ہیں؟ کیا آئی جی صاحب بتا سکتے ہیں کہ ٹریفک کے تمام رول ریگولیشن صرف موٹر سائیکل سواروں تک ہی کیوں محدود ہیں اور ان کے شیر جوان کب تک کراچی کے موٹر سائیکل سواروں سے مختلف حیلے بہانوں ترچھے ہاتھ کی کمائی کا سلسلہ جاری رکھیںگے؟ (وما توفیقی الا باللہ)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More