حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

0

سید ارتضی علی کرمانی
معاندین سے حسن سلوک نا صرف حضرت صاحب ؒ بلکہ پورے خاندان شریف کی عادت تھی۔ حضرت صاحب ؒ کے ارشادات عالیہ کی روشنی میں آپ ؒ کے خلف الرشید حضرت بابو جی مدظلہ فرماتے تھے کہ
’’ جنہیں تم لوگ ہمارا دشمن سمجھتے ہو, وہ ہمارے لئے فائدہ کا موجب بنتے ہیں۔ تمہاری قصیدہ گوئی اور مبالغہ آمیز تعریف ہمیں فتنہ میں مبتلا کرتی ہے۔ اس کے برعکس جو ہمارے نقائص اور عیوب گنواتا ہے۔ اگر وہ دوست ہوں تو ہم اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور اگر غلط ہوں تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ دشمنوں کی ایذا رسانی پر ہم صبر کرتے ہیں اور اجر پاتے ہیں۔ باوجود ان کی مخاصمت کے ہم انہیں اپنے خدا کی مخلوق سمجھ کر اپنی دعائوں میں شامل رکھتے ہیں اور اس طرح بھی خدا کے یہاں ماجور ہوتے ہیں۔‘‘
مخالفت تو حضرت صاحب ؒ کو پسند ہی نہ تھی۔ پہلے آپ پڑھ چکے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ ؒ کو حضرت ثانی سیالویؒ نے حضرت خواجہ صاحب تونسویؒ کے کبیدہ خاطر ہونے کا ذکر فرمایا تو حضرت پیر سید مہر علی شاہ ؒ صاحب شدید گرمیوں کے موسم میں سیال شریف سے سیدھے تونسہ شریف چلے گئے، تاکہ بزرگوں کے خدشات کو دور کیا جائے اور ہوا بھی یہی کہ جب آپ نے پہلی ملاقات خواجہ صاحب ؒ سے فرمائی تو ان کے تمام خدشات دور ہو گئے۔
ایک فقرہ تو حضرت صاحب ؒ کا بہت یادگار اہمیت کا حامل ہے۔ جب آپ کو یہ بتایا گیا کہ صوفیائے کرام کو مناظرات سے دور رہنا چاہئے تو آپ نے کیا خوب فرمایا تھا کہ
’’ اگر مسلمان ہی نہ ہوں گے تو صوفیائے کرام دین کی تعلیم کن کو دیں گے‘‘۔
پیرجیؒ کے مناظرات و بحثیں
حضرت پیر صاحبؒ کے مناظرانہ کمال اور علمی فضیلت کا شہرہ ملک ہندوستان کے طول و عرض میں ان کے زمانہ طالب علمی سے ہی ہوچکا تھا۔ اس بات کا اعتراف برصغیر کے ہر مکتبہ فکر کے جید علمائے کرام نے بھی کیا ہے۔ جن میں مولانا فضل حق رامپوری، استاذ العلماء مولانا لطف اللہ علی گڑھی، ان کے شاگرد رشید مولانا احمد حسن کانپوری، مولانا شاہ وصی احمد محدث پیلی بھینٹ، شمس العلماء مولوی عبداللہ ٹونکی، مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا محمد دیدار علی شاہ لاہوری، مولانا نظام الدیم وزیر آبادی، فتاویٰ سلطان الفقہ مولانا علی گوہر تونسوی، مولانا سید غلام حسین مظفر گڑھیؒ وغیرہ شامل ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے جید علمائے کرام میں سے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحبؒ تھانوی، شیخ الحدیث علامہ انور شاہؒ کشمیری اور غیر مقلدین کے پیشوا مولانا عبد الجبارؒ غزنوی اور مولانا ثناء اللہؒ امرتسری اور کئی دیگر علمائے عظام جو یا تو آپ کے ساتھ تعلیم حاصل کرچکے تھے یا اس زمانے میں پنجاب کے کسی اور بڑے مدرس میں زیر تعلیم رہ چکے تھے۔ آپ کی اس شہرت کی اس وقت تصدیق فرمائی جب آپ مسند ارشاد پر بیٹھ کر مرجع خلائق ہوئے۔ یا آپ کی تصانیف عالیہ کا شہرہ دنیائے علم میں بلند ہوا یا پھر جب آپ کا مقابلہ مردود دو جہاں مرزاقادیانی لعین کے ساتھ ہوا۔
آپ کی حیات مبارک کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران بحث آپؒ کے سوالات کی بندش مجیب کومتحیر کر ڈالتی تھی۔ آپ کی طرف سے کسی کے اعتراض کا جواب ہمیشہ برجستہ اور جامع ہوا کرتا تھا۔ اکثر معترض کے ہی سوال کا کوئی پہلو گرفت میں لے کر اس طرح لوٹا دیتے کہ سوال کرنے والا لاجواب ہوجاتا۔ عام مسائل میں سوالات کے جوابات اس قدر بلیغ اور تسلی بخش ہوتے کہ سائل اور حاضرین مجلس کے دلوں میں اتر جاتے۔ مقابل پر اعتراض کی یہ تحیر خیزی اور مسائل پر جواب کی اثر پذیرائی گویا۔
کلمو الناس علی قدر عقولھم
ترجمہ: ’’لوگوں کی سمجھ کی سطح پر کلام کرو‘‘ کی تفسیر کا حکم رکھتی تھی۔
جب گفتگو مناظرانہ رنگ اختیار کرلیتی تو تحقیق حق اور ابطال باطل کی گرمجوشی میں تسبیح ہاتھ سے رکھ دیتے اور آستین چڑھا لیتے۔ پھر کیا تھا، موج در موج دلائل کا ایک سمندر جاری ہوجاتا۔ بعض دفعہ ایسے موقع پر فرما دیتے ’’ہم نے بھی طالب علمی کی ہوئی ہے‘‘۔ جس سے آپ کی فطری تواضع اور انکسار کا پہلو بھی ہاتھ سے نہ جانے پاتا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More