روزنامہ امت اپنی طرز کا ایک مختلف اور منفرد اخبار ہے، کیونکہ اس کے لاکھوں قارئین بذریعہ مواصلاتی سہولیات اور اکثر بالمشافہ ’’امت‘‘ کے محنتی کارکنان اور کالم نویسوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ گویا ’’امت‘‘ ایک ایسی انجمن ہے، جہاں قارئین اور لکھاری ایک دوسرے کو اپنا احوال بتاتے ہیں۔ اس سے دل کا بوجھ اور مسائل کا انبار کم ہوتا ہے۔ میں مئی 2006ء سے ’’امت‘‘ میں بطور کالم نگار خامہ فرسائی کر رہا ہوں۔ اس دوران نئے دوستوں سے آشنائی ہوئی اور کئی بھولے بسرے دوستوں اور شاگردوں سے ’’امت‘‘ کے ذریعے رابطے ہو گیا، پھر قدرت کے فیصلے نے ہمارا دانہ پانی کورنگی سے گڈاپ ٹائون میں منتقل کر دیا۔ ہم جس ہائوسنگ پراجیکٹ کے رہائشی ہیں، وہ تقریباً 84 ہزار یونٹس پر مشتمل ہے۔ ان میں دس ہزار یونٹس آباد ہو چکے ہیں، تاہم یہاں ٹرانسپورٹ، پوسٹ آفس، پرائیویٹ کوریئر سروسز، پی ٹی سی ایل لینڈ لائن نیٹ ورکس سسٹم، نادرا اور پاسپورٹ آفسز ابھی تک قائم نہیں کئے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بسنے والے گھرانے اس حوالے سے بے شمار مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ میں شروع ہی سے پی ٹی سی ایل لینڈ لائن کے ذریعے اپنے بہی خواہوں سے جڑا ہوا تھا، اس لیے اب تک ٹیلی فون کی سہولت سے محروم ہونے کے سبب ان گنت چاہنے والوں سے کٹ کر رہ گیا ہوں۔ موبائل فون کا استعمال میرے مزاج میں نہیں ہے، پھر موبائل میں اچانک بیلنس ختم ہو جانے سے تمام رابطے کٹ جاتے ہیں۔ سگنلز کا مسئلہ اس کے علاوہ ہے۔
اس وقت میں گوشۂ عزلت میں ہوں اور تمامتر سماجی روابط سے یکسر محروم ہوں۔ انتہائی قریبی عزیز و اقارب بھی اپ اینڈ ڈائون اسی نوے کلو میٹرز کی مسافت کا آزار اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ زیرنظر سطور میں، میں آپ کو احوال واقعی سنا کر یہ باور کرائوں گا کہ بچپن اور لڑکپن کی دوستی کی بنیادیں اتنی گہری ہوتی ہیں کہ وقت اور فاصلوں کی دوری بھی انہیں ہلا نہیں سکتی، شاید قارئین ’’امت‘‘ کو یاد ہو کہ انہی صفحات پر 2011ء سے 2014ء کے دوران میں نے تین کالم بعنوان ’’ایک کم ظرف سے ملاقات‘‘… ’’کم ظرف سے دوسری ملاقات‘‘ اور ’’میرا دوست کم ظرف نہیں تھا‘‘ تحریر کئے تھے۔ ان کا خلاصہ یہ تھا کہ میرا بچپن کا ایک دوست اور لنگوٹیا یار سیل زمانے پر بہتا ہوا کروڑ پتی ہو گیا، وہ اسکول اور کالج کے زمانے میں نالائق اور پھسڈی طالب علم تھا، مگر قدرت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں، وہ شخص اسکولوں کی چین کا مالک ہے۔
ایک دن وہ میرے پاس آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ معاشرے میں تیز رفتار ترقی کرنے کے کون سے گر ہیں، جن سے میں ناآشنا ہوں۔ اسی لیے مضافاتی گوٹھوں میں ’’تعلیم سب کے لیے‘‘ کے نعرے کی مدد سے محروم طبقے کو تعلیم کے زیور سے تو آراستہ کر رہا ہوں، مگر خود معاشی گرداب میں پھنسا ہوں۔ گردشی قرضوں کی مدد سے ایک اسکول چلا رہا ہوں، اس کی ترقی دیکھ کر اور جلی کٹی باتیں سن کر میرا دل سیخ کباب بن گیا تھا اور میں نے اسے دو کالموں میں ’’کم ظرف‘‘ قرار دیا تھا۔ تاہم جب وہ تیسری مرتبہ میرے پاس آیا تو میں نے اس کی باتیں غیر جذباتی ہو کر سنیں اور ان رازوں سے آگاہی حاصل کی، جو سماج میں ہمیں اعلیٰ مادی رتبہ دلواتی ہیں۔
میں نے شرمندگی کا احساس مٹانے کے لیے اسے کم ظرف کہنے پر معذرت کی ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ میں جس پسماندہ اور ترقیاتی سہولیات سے محروم جن بستیوں میں اسکول چلا رہا ہوں، وہاں اس کے بتائے ہوئے سنہرے اصول لاگو نہیں ہو سکتے۔ اس نے مجھے آفر کی کہ میں اپنا اسکول دوسرے منتظمین کے حوالے کر دوں اور اس کے ادارے کی کلفٹن برانچ جوائن کر لوں۔ پک اینڈ ڈراپ کے ساتھ اس نے مجھے ایک پرکشش مشاہرے کی پیشکش کی، بقول اس کے گیارہ بجے سے ایک بجے تک اے سی کمرے میں بیٹھنا ہوگا اور والدین کے ساتھ انگریزی میں بات چیت کر کے ان کے بچوں کے مسائل سننے ہوں گے۔
میں نے جذبۂ خودی، انا اور عزت نفس کی خاطر اس کی یہ پیشکش شکریہ کے ساتھ مسترد کر دی اور کچی آبادیوں کے محنت کش والدین کے درماندہ بچوں کو اپنی ٹیم کے ساتھ علم کی روشنی بانٹتا رہا۔ اسکول کا مالی خسارہ بڑھتا گیا، پھر ٹینشن سے بھرے حالات کے جبر سے مجبور ہو کر ہم نے اپنا اسکول زیادہ پرجوش اور توانا افراد کے حوالے کر دیا۔ اس کی تفصیلات ’’امت‘‘ میں ’’بڑا فیصلہ‘‘ کے عنوان سے تین اقساط میں شائع ہو چکی ہیں۔ وقت گزرتا گیا، میں اپنے اس دوست کو تقریباً بھول چکا تھا کہ اچانک موبائل فون کی میسج گھنٹی بجی۔ دوسری طرف میرا وہی یار تھا بولا: ’’ماسٹر، کہاں غائب ہو گیا ہے؟ اپنے مکان کی لائیو لوکیشن بھیج دے، میں ابھی آرہا ہوں تیرے پاس۔‘‘ پھر وہ پوری سج دھج کے ساتھ نئی نکور لشکارے مارتی کار میں میرے گھر آن پہنچا۔ خوب گلے شکوے کئے اور کہنے لگا: ’’میں کئی مہینوں سے تیری تلاش میں ہوں، میرا دل چاہتا ہے کہ تیرے ساتھ گھنٹوں باتیں کروں اور تجھے بتائوں کہ تیرے بھائی کا بزنس کہاں سے کہاں تک پھیل چکا ہے۔‘‘
اس کے بعد اس نے مجھے ترقی کرنے کے فلسفے بتائے اور مجھے خوب لتاڑا کہ میں نے اپنا اسکول کیوں دوسروں کے حوالے کر دیا۔ اس نے مجھے یاد دلایا کہ اسکول چلانا ایک انڈسٹری ہے، جس میں نوٹ برستے ہیں، اپنی انڈسٹری دوسروں کو دے کر خود شہر سے 40 کلو میٹرز دور بسیرا کر لینا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔ اس نے مجھے پرلے درجے کا احمق شخص قرار دیا اور ترقی کی دوڑ سے خود کو علیحدہ کرنے پر میرے خوب لتے لیے۔ میں نے اس کی ہر بات غور سے سنی اور ترقی کے جدید فلسفوں سے آگاہی حاصل کی۔ اس نے بتایا کہ پورے ملک میں اس کے تعلیمی اداروں کی شاخیں پھیل چکی ہیں، ہزاروں افراد ان سے وابستہ ہیں، اسے خود اندازہ نہیں ہے کہ اس کے پاس کتنی دولت ہے۔ اس نے مجھے سکھایا کہ پاکستان میں کسی بھی قسم کے کاروبار کو پھیلانے اور اس میدان میں ڈان بننے کے لیے ضروری ہے کہ رشوت اور گھوس کی چابی سے بند تالے کھولے جائیں۔ آپ کو لفظ ’’رشوت‘‘ پسند نہیں ہے تو اس کی جگہ اسپیڈ منی اور نذرانے کی اصطلاح استعمال کر لیں، مجھے اپنے ایک مرحوم دوست محمد نسیم کا یہ شعر یاد آگیا کہدرد کی شدت سے گھبرا کرزہر کا نام دوا رکھا ہےرشوت تو زہر ہے، کرپشن کی بنیاد ہے، مگر دنیاوی ترقی کے شیطانی سراب کے پیچھے دوڑنے والوں نے نہ صرف اس زہر کو دوا کا نام دے دیا ہے، بلکہ اسے کامیابی کے لیے ناگزیر قرار دے کر اس کی صفات کا ڈھنڈورا بھی پیٹنا شروع کر دیا ہے۔ رشوت دراصل ’’ملی بھگت‘‘ کے ذریعے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی اساس ہے، اس پر ہماری مادی ترقی کی عمارت کھڑی ہے، جو کسی بھی وقت زمیں بوس ہو سکتی ہے۔ میرے دوست نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا اور اپنی ترقی اور کامیابی کا دوسرا راز بتایا۔ اس نے کہا کہ اس دنیا میں ہر شخص کی قیمت ہے، تمہیں اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنی چاہئے کہ پہلی یا پھر دوسری ملاقات میں اس کی قیمت کا اندازہ لگائو، پھر اسے خرید کر اپنی مطلب براری کرتے جائو۔
میں اس کے اس شیطانی فلسفے سے ہرگز متفق نہیں ہوں، آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے انمول افراد موجود ہیں جو نہ بکتے ہیں اور نہ ہی طاغوت کے آگے جھکتے ہیں۔ میری سوچ کل بھی میرے دوست سے مختلف تھی اور آج بھی میں اس سے اس حوالے سے متفق نہیں ہوں۔ میرے بچپن کے یار نے بزنس ٹائیکون بننے کا تیسرا گر بتایا کہ تم سماج میں سلطانہ ڈاکو اور رابن ہڈ بن جائو، امیر غریب سب کو دونوں ہاتھوں سے لوٹو، تاہم صدقہ خیرات کے کام بھی کرتے رہو، ساتھ ہی میڈیا پر ان نیک کاموں کا خوب خوب ڈھنڈورا پیٹو۔ میں اس کی یہ تھیوری سن کر سن ہو گیا اور سوچنے لگا کہ ہمارا دین کہتا ہے کہ صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ خالص خدا کے لیے اس طرح دو کہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو تاکہ دوسروں کی خودداری کو ٹھیس نہ پہنچے، مگر میرا بزنس ڈان اولڈ فرینڈ مجھے عجیب ہی شیطانی پٹی پڑھا رہا ہے۔ میں اس کے نفس اصلاح کی دعا کرتا رہا۔
کامیابی کا چوتھا راز بتاتے ہوئے میرے دوست کی آنکھوں میں ابلیسی حرص و ہوس کی چمک دکھائی دی۔ کہنے لگا: ’’یاد رکھنا ماسٹر پاکستان میں ہر بڑا آدمی لینڈ مافیا ہے، توسیع پسندی اور زمین پر قبضے کی طمع اور لالچ کامیابی کی برقی سیڑھی ہے، غریب کی زمین پر قبضہ کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے، مارکیٹ ریٹ پر دے دے تو ٹھیک ورنہ اپنی طاقت سے اس پر قبضہ کر لو۔ سرکاری زمین پر قبضہ کرنا زیادہ آسان ہے، رشوت اور مال کی چمک سے ہماری بیوروکریسی موم ہو جاتی ہے۔ میں نے کئی اسکول ایسی ہی زمین پر قائم کر رکھے ہیں، ہر مہینہ متعلقہ افسران کو ان کا لقمہ تر بھجوا دیتا ہوں۔‘‘
میں حیرت سے اس کی شکل دیکھتا رہا۔ اسکول اور کالج کے زمانے میں بیک بینچوں پر بیٹھنے والا اپنی دولت کے بل پر مجھے نت نئے اسباق پڑھا رہا تھا۔ آخر میں اس نے ایک انکشاف کیا: ’’جس ہائوسنگ پراجیکٹ میں تو نے مکان خریدا ہے، یہاں تیرے بھائی کی کروڑوں کی انوسٹمنٹ ہے۔ میں نے سارے اثاثے ہولڈ کر رکھے ہیں، چند مہینوں کے بعد ان کے دام آسمان سے باتیں کریں گے، تب میں ایک ایک کر کے انہیں فروخت کر دوں گا تو بھی ایسا ہی کچھ کر لے، خوامخواہ سادھو بابا بن کر مت بیٹھ جا… اپنی اولاد کے لیے کچھ بنا لے، میری باتیں غور سے سن کر اور ان پر عمل بھی کیا کر، میں پھر آئوں گا اور تجھے بتائوں گا کہ ترقی کس کو کہتے ہیں؟ اور ترقی اور کامیابی کے راز کیا ہیں؟‘‘ اس نے ہاتھ ملایا اور رخصت ہو گیا۔
قارئین! میں سوچ رہا ہوں کہ کیا واقعی ترقی اور کامیابی وہی ہے جو میرا دوست بتا رہا تھا کیا چند ساعتوں پر مشتمل اس فانی زندگی کو اپنے دوست کے چار نکاتی فارمولے کی نذر کر دوں یا پھر غلام ہمدانی مصحفی کے اس شعر کے سبق کو عملی طور پر ازبر کر لوں کہ
مصحفی گوشۂ عزلت کو سمجھ تخت شہی
کیا کرے گا تو عبث تخت سلیماں لے کر
٭
٭٭٭٭٭