عوام موجودہ حکومت کا جلد انجام بد نہیں چاہتے

0

حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ پانچویں بار مؤخر کر دیا ہے۔ انرجی ٹاسک فورس کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کو بجلی کی قلت، کمپنیوں کی نااہلی اور نرخوں میں اضافے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ کسی دوسرے کی چوری اور بدانتظامی کا خمیازہ عوام بھگتیں، انہیں یہ منظور نہیں۔ انہوں نے ہدایت دی کہ پاور سیکٹر میں چوری اور دیگر نقصانات کی وجہ سے صارفین پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے اقدامات کئے جائیں اور بجلی چوروں کے خلاف فوری طور پر کارروائیاں شروع کی جائیں۔ دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ اسدعمر نے کہا ہے کہ بجل بلوں کی وصولی کا عمل بہتر ہونے تک بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھانے دوں گا۔ صارفین کو بجلی کے نرخوں میں زیادہ سہولتیں دینے کی کوشش کریں گے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کو بار بار مؤخر کرنا ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اس معاملے میں مسلسل گومگو کا شکار ہے۔ ایک طرف وہ ملک کے موجودہ مصنوعی اقتصادی بحران کی وجہ سے بجلی کی قیمتیں بڑھانا چاہتی ہے۔ لیکن دوسری طرف اسے عوام کے شدید ردعمل کا ڈر ہے۔ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو 2018ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کی شکست کا بڑا سبب یہی تھا کہ وہ اپنے دور میں بجلی کی قلت پر قابو پا سکی نہ ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر سکی۔ 2013ء کی انتخابی مہم میں اس نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ برسر اقتدار آنے کے بعد چھ ماہ سے ایک سال کی مدت میں وہ بجلی کی پیداوار اتنی بڑھا دے گی کہ گھریلو اور صنعتی و تجارتی صارفین کی تمام ضروریات پوری ہو جائیں، ملک بھر میں کہیں لوڈشیڈنگ نہ ہو اور قیمتوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ لیکن سابقہ حکومت کے تمام وعدے اور دعوے غلط ثابت ہوئے اور اس کے جاتے جاتے بجلی کی قلت اور قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ نواز شریف کی حکومت برطرف ہونے کے کچھ دنوں بعد ہی شہباز شریف کا یہ مضحکہ خیز بیان سامنے آیا کہ ہم اپنے دور میں ملک سے بجلی کا بحران مکمل طور پر ختم کر چکے تھے، لیکن ہمارے جاتے ہی بجلی کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔ میاں شہباز شریف یہ جھوٹ بولتے ہوئے بھول گئے کہ ملک میں اس وقت بھی مسلم لیگ ہی کی حکومت قائم تھی، شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے جو نواز شریف کو اپنے دل کا وزیراعظم کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بجلی کی قیمتیں بڑھانا پانچویں بار مؤخر کیا ہے تو یہ اس کی کمزور قوت فیصلہ اور نیت میں فتور کو ظاہر کرتا ہے۔ اب وزیراعظم عمران خان نے چوری اور بدانتظامی کا بوجھ عوام پر نہ ڈالنے کا جو اعلان کیا ہے اور وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے بجلی کے بلوں کی وصولی بہتر ہونے تک نرخ نہ بڑھانے کی بات کی ہے تو یہی درست طرز عمل ہے۔
اہل وطن کو وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت سے یہی شکایت ہے کہ قومی دولت کے لٹیروں سے رقم واپس لے کر خزانہ بھرنے اور عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اس نے آتے ہی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کا بوجھ عوام پر لادنے کا بدعنوان حکمرانوں کا آزمودہ نسخہ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس کا نتیجہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے اپنی چھوڑی ہوئی نشستوں پر شکست کی صورت میں فوراً ہی دیکھ لیا۔ شاید اسی سے متاثر ہو کر حکومت اپنی شدید خواہش کے باوجود بجلی کی قیمتیں بڑھانے سے ہچکچا رہی ہے۔ وطن عزیز میں بجلی کا بدترین بحران پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا تھا، جسے بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ناکارہ نجی پاور پلانٹس لگا کر کک بیکس اور بھتے وصول کر کے انتہا پر پہنچا دیا۔ اس کا نہایت عبرت انگیز پہلو یہ تھا کہ نجی پاور پلانٹس کے ذریعے بجلی کی قلت اور نرخوں میں اضافے کے ذمے دار وزیر راجہ اشرف بعد میں ترقی دے کر ملک کے وزیر اعظم بنا دیئے گئے۔ لیگی دور میں یہ بحران کسی قدر کم ضرور ہوا، لیکن کمیشن کی خاطر بجلی کے نجی منصوبے جاری رکھنے اور ایسے ہی دیگر منصوبے شروع کرنے کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت مقامی ضرورت سے زیادہ ہے، لیکن اس کا بھرپور استعمال نہیں کیا جاتا۔ جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ پیداواری لاگت زیادہ اور قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے حکومت بجلی کمپنیوں کو زرتلافی (سبسڈی) دینے پر مجبور ہے۔ اس کے باوجود لاگت کے برابر قیمت وصول نہیں ہوتی، تو لوڈشیڈنگ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اول تو یہ جواز سرے سے غلط ہے۔ اصل خرابی حکومت کی نااہلی، بدانتظامی اور بدعنوانی ہے۔ وہ چھوٹے بڑے بجلی چوروں پر قابو پانے کی ہمت نہیں رکھتی یا دانستہ ان سے صرف نظر کرتی ہے۔ ترسیلی نظام (لائن لاسز) کی خرابی کے باعث کم و بیش تیس فیصد بجلی ضائع ہو جاتی ہے۔ بجلی کمپنیوں کے اعلیٰ اہلکار خود بڑے پیمانے پر بجلی چوری میں ملوث ہیں۔ وہ بجلی چوروں کی حوصلہ افزائی کر کے اپنے اداروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان سب خرابیوں کا خمیازہ عوام کو زائد بلوں کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جو لوگ قانونی طور پر کنکشن حاصل کر کے بروقت اور پورے بل ادا کرتے ہیں، ان پر اضافی بلوں کا بوجھ ڈالنا قانون شکن عناصر کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ کراچی میں کے الیکٹرک کی بدترین کارکردگی کا ایک بڑا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے بڑے بڑے لٹیروں نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جو مل جل کر صارفین کو چاروں ہاتھوں سے لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت آئی ایم ایف کے بجائے چین، سعودی عرب، ایران اور دیگر خلیجی ریاستوں جیسے دوست ممالک سے اقتصادی بحران پر قابو پانے کی عارضی کوششیں کر رہی ہے۔ جبکہ زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کرے۔ اسی طرح بجلی سمیت کسی بھی شعبے، محکمے اور ادارے کی بنیادی خامیوں پر قابو پانے پر توجہ دے تو اسے عوام پر بوجھ ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، بلکہ ان اقدامات کے نتیجے میں اشیا وخدمات کے نرخ کم ہو کر صارفین کو بڑا ریلیف ملے گا۔ عوام نہیں چاہتے کہ تحریک انصاف کی حکومت جلد ہی اس انجام بد کو پہنچے جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا مقدر بن چکا ہے۔٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More