حکومت سندھ نے کل اسکولوںکے طالب علموں کو شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے عرس کی مناسبت سے ایک دن کی چھٹی دی، مگر ان کو یہ نہیں بتایا کہ ’’شاہ لطیف کون تھے؟‘‘
یہ سوال ہمارے بہت سارے ذہین بچوں کے ذہنوں میں کل سے گونج رہا ہوگا کہ ’’شاہ لطیف کون ہیں؟‘‘
اس سوال کا جواب نہ انہیں اساتذہ سے ملے گا اور نہ حکمرانوں سے۔ حالانکہ دونوں کے پاس ایک عام سا جواب ہے کہ شاہ لطیف سندھ کے صوفی شاعر تھے۔ مگر صوفی شاعر تو اور بھی ہیں۔ سندھ میں جگہ جگہ صوفیائے کرام کے مزار ہیں۔ اگر آپ کبھی موسم سرما کی چھٹیوں میں سندھ کی سیر کریں تو مٹی کے مکانوں اور گھاس پھونس کی جھونپڑیوں والے دیہات میں اگر آپ کو کوئی عمارت پکی نظر آئے گئی تو وہ کسی صوفی فقیر کا مزار ہوگا۔ کاشی کی نیلی ٹائیلوں سے بنی ہوئی دیواریں اور سفید رنگ کا وہ گول گنبد جن پر سرمئی رنگ کے کبوتر بیٹھے ’’تو ہی تو‘‘ کا ورد کرتے رہتے ہیں۔
سندھ میں اتنے صوفیائے کرام ہیں کہ کہتے ہیں جب قلندر لال شہباز سیوھن میں تشریف فرما ہوئے، تب ایک شخص نے انہیں دودھ سے بھرا ہوا پیالہ بھیجا۔ جس کا مطلب تھا کہ یہ شہر درویشوں سے اس طرح بھرا ہوا ہے، جس طرح یہ پیالہ دودھ سے! کہتے ہیں قلندر شہباز نے اس دودھ کے پیالے میں گلاب کا پھول رکھا اور پیالے سے دودھ نہیں گرا۔ اس عمل میں یہ پیغام تھا کہ میں اس شہر میں پھول بن کر رہوں گا۔ سندھ واقعی دودھ کے پیالے کی طرح صوفیائے کرام سے چھلک رہا ہے، مگر شاہ لطیف قلندر لال شہباز کی طرح سندھی صوفی شعراء کے بھرے ہوئے پیالے میں تیرتے ہوئے پھول ہیں۔
وہ پھول جو 266 برس قبل بکھر گئے، مگر ان کی خوشبو آج بھی اس دھرتی کی سوندھی مٹی میں موجود ہے۔ جب بھی شمال کی سرد ہوا چلتی ہے، تب اس خوشبو کے جھونکے ماضی کی کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ جب بھی بارش برستی ہے تب پیاسی دھرتی کی خوشبو میں پیغام لطیف کی مہک جاگ اٹھتی ہے۔ جب بھی دریائے سندھ میں پانی کی سرکش لہریں سمندر کی طرف بڑھتی ہیں، تب ان کا سفر شاہ لطیف کے سروں سے ہم آغوش ہو جاتا ہے۔ وہ شاہ لطیف جنہوں نے کہا تھا:
’’دلبر اس دنیا میں باقی بچے گی خوشبو‘‘
وہ خوشبو ویسے تو سارا سال سندھ کی دھرتی سے پھوٹتی رہتی ہے، مگر اس خوشبو میں اس وقت شدت پیدا ہو جاتی ہے، جب شمال کی ہوائیں چلنا شروع ہوجاتی ہیں، گرم موسم ہوجانے لگتا ہے، سرد موسم پردیسی پرندوں کے پروں پر بیٹھ کر جھیلوں پر اترتا ہے اور جھیلوں کے قریب بنی ہوئی جھونپڑیوں میں داخل ہوتا ہے۔
وہ خوشبو اس شاعر کی پہچان ہے، جس شاعر کے آباؤ اجداد افغانستان کے بلند پہاڑوں سے اتر کر سندھ کے میدانوں میں آباد ہوئے تھے۔ وہ شاعر جو سید تھا، مگر اس نے سندھ کے روایتی سیدوں کی طرح غریب اور ان پڑھ عوام کو نہیں لوٹا۔ اس نے اپنے علم کو دھاگوں اور تعویذوں کا بزنس نہیں بنایا۔ اس نے خوف میں مبتلا کرکے ان کی ہمتوں کو ختم نہیں کیا۔ سندھ کے اکثر صوفیائے کرام کے برعکس شاہ لطیف نے اپنی شاعری کی معرفت پورے علاقے کا علم عام لوگوں تک پہنچانے کا عظیم کردار ادا کیا۔ اس لیے جب بھی کوئی عالم، شاہ لطیف کی شاعری کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کو کبھی جلال الدین رومی کی مثنوی کے اشعار یاد آنے لگتے ہیں تو کبھی اس کے دل پر ایران کے حافظ کا کوئی شعر دستک دیتا ہے۔ کبھی شاہ لطیف کی شاعری پڑھتے ہوئے عمر خیام کی مستی چھانے لگتی ہے۔ کبھی شاہ سائیں کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے قرآن مجید کی آیت یاد آجاتی ہے اور کبھی ان کا کوئی شعر بھگت کبیر کے اس دوہے کی بازگشت محسوس ہوتا ہے کہ:
’’آؤ سجن نینوں میں پلک ڈھانپ توہے لوں
نا میں دیکھوں اور کو نہ توہے دیکھن دوں‘‘
یعنی: ’’میرے محبوب آؤ اور میری آنکھوں میں بس جاؤ کہ میں اپنی پلکیں موند لوںنہ میں کسی اور کو دیکھوں اور نہ میں تمہیں کسی کو دیکھنے دوں۔‘‘
ایسی محبت کی پکار ہے اس شاعر کے کلام میں، جس نے اکثر صوفیاء کی طرح صرف تصوف کے رموز کو اپنے اشعار میں نہیں سمایا، بلکہ اس نے اس دھرتی پر موجود زندگی کے ہر معصوم روپ کو اپنے اشعار کی زینت بنایا۔ شاہ لطیف کی شاعری میں صرف انسانوں کا تذکرہ نہیں ہے، بلکہ ان کی شاعری میں وہ غزال بھی ہیں، جو پیاس کے مارے ہیں اور ریگستان کی جلتی ہوئی ریت پر چلتے رہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں صرف وہ جانور نہیں، جن کے لیے وہ بارش کی دعا مانگتے ہیں، بلکہ ان کی شاعری میں وہ پرندے بھی ہیں، جن کے لیے وہ کہتے ہیں کہ :
’’وہ ہمیشہ غول کی صورت میں ساتھ اڑتے ہیں اور ایک دوسرے سے دور نہیں ہوتےان پرندوں میں انسانوں سے زیادہ پیار ہے‘‘
وہ پردیسی پرندوں جو موسم سرما میں سرد ممالک سے سفر کر کے آتے ہیں اور ان سردیوں میں ان کا شکار سندھ میں اب تک عام ہے۔ شاہ لطیف 266 برس قبل ان کے تحفظ کے لیے شکاریوں سے منت کرتے اور کہتے تھے انہیں مت مارو!
اور نہ صرف اتنا بلکہ ان کی شاعری میں ان انسانوں کی حمایت ہے، جن انسانوں کو لوٹا جاتا ہے۔ جن انسانوں کا ہر طرح سے استحصال کیا جاتا ہے۔ جن انسانوں سے کوئی ہمدردی نہیں کرتا، ان انسانوں کی جس طرح شاہ لطیف نے حمایت کی ہے، اس حمایت کی وجہ سے انہیں شاعری میں مختلف مقام حاصل ہوا۔ وہ عام شاعر نہیں۔ وہ عام صوفی نہیں۔ وہ خاص شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کو شعور پھیلانے والی روشنی بنایا اور اس اندھیرے کے خلاف ساز اور آواز کے ساتھ جنگ کی، جو اندھیرا جہالت کی علامت ہے۔ شاہ لطیف وہ واحد شاعر تھے، جنہوں نے عام لوگوں کی بات کی۔ انہوں نے بادشاہوں اور امیروں کے قصیدے نہیں پڑھے۔ انہوں نے اپنے دور کے حکمرانوں کی پالیسی کو سپورٹ کرنے کے بجائے لوگوں کے ذہنوں میں ایسے سوالات اٹھائے، جن سوالات کی وجہ سے بغاوت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ شاہ لطیف عام صافی شاعر نہیں، بلکہ بہت بڑے باغی دانشور تھے۔ انہوں نے محبت اور محنت کے عام تصورات پر کڑی تنقید کی اور نئے تصوارت کی راہ ہموار کی۔
شاہ لطیف وہ عظیم انقلابی شاعر تھے، جنہوں نے کمزوری میں موجود طاقت کو دریافت کیا۔ وہ شاعر جنہوں نے کسانوں، مچھیروں اور مویشی چرانے والے لوگوں میں موجود محبت اور وفا کی خوبیوں کو جس خوبصورت انداز سے بیان کیا، وہ انداز عام لوگوں کے دلوں میں اتر گیا۔ شاہ لطیف کے کلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عام فہم ہے۔ اس کی زبان عوام کی زبان ہے۔ حالانکہ اس شاعری میں بہت بڑا علم ہے۔ اس شاعری میں عربی، فارسی، پشتو اور سنسکرت کا قیمتی علم ہے، مگر اس کا اظہار بہت سادہ اور عام سا ہے۔ کیوں کہ شاہ لطیف نے اپنی شخصیت کو ایک عظیم درس گاہ میں تبدیل کیا تھا۔ اس درس گاہ کے طالب علم عام لوگ تھے۔ وہ جن کے پیر ننگے ہوتے تھے۔ وہ جن کے کپڑے پھٹے ہوتے تھے۔ شاہ لطیف بھٹائی نے ان لوگوں کے بارے میں لکھا کہ ’’ان کے ظاہر پر نہ جاؤ۔ ان کے کپڑے مہنگے اور اجلے نہیں، مگرا ن کی روح ریشمی اور بہت اجلی ہے۔‘‘ شاہ لطیف نے اپنے دور کے غریب لوگوں میں اس فخر کو دریافت کیا، جو فخر کردار میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ: ملک اتنی ترقی کرے کہ لوگ اپنے ملک کی وجہ سے پہچانے جائیں! اور یہ سب کچھ عام ہے۔ اسی طرح ہوتا ہے۔ کل بھی اس طرح ہوتا تھا اور آج بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ آج امریکہ کے لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ امریکی ہیں، مگر شاہ لطیف ملکوںکی ترقی سے زیادہ لوگوں کی ترقی پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اصل کامیابی یہ ہے کہ سرزمین اچھے کردار والے لوگوں کی وجہ سے پہچانی جائے۔ یہ ہی سبب ہے کہ شاہ لطیف یہ نہیں کہتے کہ ’’میرے لوگ میرے وطن پر فخر کرتے ہیں۔‘‘ وہ اس کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ ’’میرے وطن کو میرے عام لوگوں پر فخر ہے۔‘‘ اس لیے وہ انسان دوست شاعر ہیں۔ وہ ان انسانوں سے محبت کرتے ہیں جو عام ہیں۔ جو غریب ہیں۔ جو پیدل ہیں۔ جن کے کپڑے میلے ہیں۔ ان کے جسم سے پسینے کی بو آتی ہے۔ شاہ لطیف ان راجاؤں کی ان رانیوں کی تعریف نہیں کرتے جو ہیرے اور جواہرات سے لدی ہوئی ہیں، بلکہ وہ ان عورتوں کی تعریف کرتے ہیں، جو پانی بھرنے کے لیے ننگے پیر پیدل جاتی ہیں اور جب سر پر دو گھڑے رکھ کر چلتی ہیں تو چھلکتے ہوئے پانی کی وجہ سے ان کے پیروں پر کیچڑ جم جاتا ہے۔ شاہ لطیف ان عورتوں کی بات بڑے فخر سے کرتے ہیں، جن کے جسم پر سونے کا کوئی تار تک نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’وہ سیاہ رنگ کے دھاگے پہنتی ہیں۔‘‘ شاہ لطیف بھٹائی کے پورے کلام میں صرف ان بادشاہوں کی تھوڑی سی تعریف ہے، جو اپنے طبقے کو چھوڑ کر عام لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔
شاہ لطیف ایک عظیم تبدیلی کا ترانہ ہیں۔ وہ بیداری اور بغاوت کا گیت ہیں۔ وہ بجھی ہوئی آنکھوں میں امید کا دیپ جلاتے ہیں۔ وہ مایوس اور اداس دل میں تمنا کا طوفان اٹھاتے ہیں۔ ایسے عظیم اور انقلابی شاعر کے عرس پر چھٹی نہیں ہونی چاہئے۔ اس دن تو تعلیمی اداروں میں ’’پیغام لطیف‘‘ کے درس کا انتظام ہونا چاہئے۔ مگر ہم ان اہم دنوں پر تعلیمی اداروں کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ ہمارے اس پیغام کو عام لوگوں تک پہنچنے نہیں دیتے، جو پیغام اس نظام کے خلاف ہے، جس نظام میں شاہ لطیف جیسے عظیم عوامی شاعروں کے مزاروں پر سرکاری پالیسیوں نے قبضہ کیا ہے، ان عوام دشمن قبضوں کے خلاف شاہ لطیف جیسے شاعروں نے پوری زندگی سر اور ساز کے ساتھ پرامن جدوجہد کی۔ وہ جدوجہد آج بھی ادھوری ہے، کیوں کہ عوام اور عوامی حقوق کے درمیان بہت بڑی دوری ہے۔ پیغام لطیف اس دوری کو ختم کرنے کا خوبصورت راستہ ہے۔ وہ راستہ جس کا انتظار منزل صدیوں سے کر رہی ہے اور شاہ لطیف کے الفاظ میں یہ کہہ رہی ہے کہ:
’’عظیم مسافر راستوں میں مر جاتے ہیں‘‘