عباس ثاقب
سردار گھرانے کی ملازمت قبول کرتے ہی میں نے سب کچھ بھلاکر بلا تکلف خود کو پوری طرح ڈرائیور کے روپ میں ڈھال لیا اور ’’ویاہ‘‘ میں آنے والے مہمانوں کو ڈھونے میں جُت گیا۔ اپنی طرف سے احتیاطی اقدامات کے طور پر میں نے داڑھی مونچھیں بڑھالی تھیں اور ڈرائیوروں کی ڈانگری نما وردی مع ٹوپی زیب تن کیے بغیر اس بڑی سی ویگن نما گاڑی کے اسٹیئرنگ کے پیچھے نہیں بیٹھتا تھا، جو مجھے سونپی گئی تھی۔ جبکہ ایسے ہر ’’پھیرے‘‘ کے دوران کم ازکم ایک ملازم بھی گاڑی کے ساتھ ہوتا تھا اور مہمانوں کو وصول کرنا اسی یا ان ہی کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔
میں گاڑی چھوڑ کرجانے سے ہر ممکن گریز کرتا تھا، تاکہ کسی پولیس والے سے سامنا ہونے کا کم سے کم امکان ہو۔ تاہم دن میں کئی بار بٹھنڈا کے ریلوے اسٹیشن اور بس اڈے کے چکر لگاتے ہوئے مجھے ہر لمحے پولیس والوں کی نظروں میں آنے کا دھڑکا لگا رہتا۔ لیکن یہ خطرہ مول لینے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ مہمانوں سے زیادہ بات چیت کی نوبت نہ آئے۔ حویلی میں بھی اپنی کوٹھڑی تک محدود رہتا تھا، جو مجھے خصوصی طور پر الاٹ کی گئی تھی۔
اس دوران میں لاجو بہن کی بے پناہ مصروفیات اور ذمہ داریاں کی وجہ سے ان سے کبھی کبھار، اور وہ بھی سرسری ملاقات اور بات چیت ہو پاتی تھی۔ مہندر اور اس کے چچا اور تایا سے گفتگو بھی زیادہ تر ہدایات کی وصولی تک محدود رہتی تھی۔
شادی کے دن بارات کی آمد تو شام کو ہونا تھی، لیکن دوپہر ہوتے ہی حویلی میں میلہ سا لگ گیا۔ گزشتہ کئی دنوں سے جاری رسوم اب نکتہ عروج کو پہنچ گئی تھیں۔ بیاہ کی رسوم کے لیے حویلی کے وسیع احاطے میں بہت بڑا پنڈال سجادیا گیا تھا، جب ایک دیوار کے ساتھ درجنوں اقسام کے کھانوںکی پکائی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مجھ سمیت تمام ملازمین کو دم لینے کی مہلت نہیں مل رہی تھی۔ کیونکہ حویلی کے مکین مہمانوں کی خاطر داری میں کوئی کسر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ہر دو منٹ بعد ڈرائیوروں کی طلبی ہوتی اور انہیں کوئی چیز لانے، کسی کو لے کر آنے یا چھوڑکر آنے کا حکم سنا دیا جاتا۔
خدا خدا کرکے شام ہوئی اور برات کی آمد کا انتظار شروع ہوا۔ مجھے سکھپال سنگھ سے پتا چلا تھا کہ ہرمندر سنگھ جی کے سمدھی سوہن سنگھ ساندھو گلاب گڑھ سے لگ بھگ سات میل کے فاصلے پر واقع نصیب پور گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں اور اس خاندان کی ٹکر کے زمیندار ہیں۔ شادی میں اس قدر اہتمام کی یہی وجہ ہے۔ سننے میں آیا تھا کہ لڑکا موہن سنگھ ولایت سے پڑھ کر آیا ہے۔
تاہم مجھے اس تمام ہنگامے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ بس یہ خواہش تھی کہ جلد از جلد اور بعافیت سب نمٹ جائے، تاکہ دو چار دن یہاں گزارنے کے بعد پولیس کی سرگرمی ٹھنڈی پڑنے کا یقین ہوتے ہی میں بکرم جیت سنگھ کی حویلی کا رخ کروں۔ اب میرا منصوبہ یہ تھا کہ حویلی کی کوئی گاڑی یا موٹر سائیکل ساتھ لے کر ریوالور سے مسلح اپنی مہم پر جاؤں گا، تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال سے بچ سکوں اور اپنا مقصد پورا کر کے فوری طور پر فرار ہونے میں کامیاب ہو جاؤں۔
میرا یہ بھی ارادہ تھا کہ میں اپنے کاغذات لینے کے بعد اس حویلی میں واپس آنے کے بجائے سیدھا دلّی کی طرف روانہ ہو جاؤں گا اور راستے میں کسی مناسب جگہ حویلی کی گاڑی چھوڑ کر دلّی جانے والی کسی بس میں سوار ہو جاؤں گا۔
شام کو آنے والی بارات کا انتظار کرتے کرتے رات کا پہلا پہر گزر گیا۔ لیکن جب بارات پہنچی تو اس کی شان و شوکت اور دھوم دھام دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے۔ باراتی بھی اتنی بڑی تعداد میں تھے کہ پنڈال چھوٹا پڑنے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ اس دوران میں میری کوشش رہی کہ لوگوں کے ہجوم سے الگ تھلگ ہی رہوں۔ لہٰذا کوئی بھی ذمہ داری پوری کرنے کے بعد میں پہلی فرصت میں اپنی کوٹھڑی میں پہنچ جاتا تھا۔ میں نے کھانا بھی وہیں کھایا تھا۔
بارات کی رخصتی کی تیاریاں چل رہی تھیں کہ مہندر نے دلہن کے ذاتی استعمال کا کچھ سامان اپنی بہن کی سسرال پہنچانے کی فرمائش کی اور رہنمائی کے لیے سکھپال سنگھ کو ساتھ کر دیا۔
ہم نصف شب کے لگ بھگ مہندر کی جیپ میں حویلی سے روانہ ہوئے تو پتا چلا کہ سکھپال سنگھ کو بھی نصیب پور کا راستہ اچھی طرح معلوم نہیں ہے۔ کیونکہ وہ بھی برسوں پہلے صرف ایک بار وہاں گیا تھا۔ تاہم فاصلہ اتنا کم تھا کہ ہمیں امید تھی ایک دو جگہ سے راستہ پوچھ کر منزل پر پہنچ ہی جائیں گے۔ لیکن اتنی رات گئے دیہات میں رہنمائی حاصل کرنا آسان نہ تھا۔ چنانچہ ہمیں پہنچنے میں خاصی دیر لگ گئی۔
سوہن سنگھ ساندھو ان کے سمدھی کے مقابلے میں قدرے پرانے طرز کی لیکن زیادہ پرشکوہ ثابت ہوئی۔ وہاں ان کے ایک معتمد نے ہمارا استقبال کیا اور سامان وصول کر کے واپسی کے لیے ایک بہتر راستہ تجویز کر دیا۔ جس کی وجہ سے ہم قدرے جلدی گلاب گڑھ واپس پہنچ گئے، جہاں بارات رخصت ہو چکی تھی۔ میں نے سکون کا سانس لیا اور اپنی کوٹھڑی میں چلا گیا۔
مجھے بستر پر لیٹے نصف گھنٹا ہی ہوا تھا کہ سکھپال کا ایک اور نادر شاہی حکم نازل ہوا۔ مجھے خاندان کی کچھ ایسی قریبی خواتین کو ان کے گھروں تک پہنچانا تھا، جن کے گھر کے مرد پہلے ہی جا چکے تھے۔
انکار یا ہچکچاہٹ کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ حویلی کے تمام ملازمین مختلف کاموں میں مصروف ہونے کی وجہ سے دستیاب نہیں ہیں۔ لہٰذا وہ خواتین اپنے ٹھکانوں تک خود رہنمائی فراہم کریں گی۔
میں مہمانوں کی آمدورفت کے لیے استعمال ہونے والی ویگن تک پہنچا تو اسے درجن بھر خواتین سے ٹھسا ٹھس بھرا پایا۔ خواتین کی مخصوص باتونی عادت کے مطابق گاڑی میں شور سا مچا ہوا تھا۔ میں نے اسٹیئرنگ سنبھالا تو سکھپال نے مہمان خواتین سے درخواست کی کہ سب سے قریبی گاؤں سے تعلق رکھنے والی خواتین میری رہنمائی کریں۔ (جاری ہے)
Next Post