دعا کی قبولیت کا عجیب واقعہ

0

محمد بن یزید کہتے ہیں:
’’مجھے امیر المومنین سیدنا عمر بن عبد العزیرؒ نے کچھ لوگوں کو جیل سے نکالنے کا حکم دیا۔ سو میں نے انہیں نکال دیا، حجاج کے کاتب یزید بن ابی مسلم کو چھوڑ دیا تو اس کو مجھ سے نفرت ہوگئی اور اس نے مجھے قتل کرنے کی نذر مان لی۔
میں اس وقت افریقہ میں تھا، جب کہا گیا کہ حجاج کا کاتب یزید بن ابی مسلم، یزید بن عبد الملک کی طرف سے انصار کے غلام محمد بن یزید کی جگہ آیا ہے۔ (یہ عمر عبد العزیزؒ کی وفات کے بعد کی بات ہے) تو میں وہاں اس سے بھاگ کھڑا ہوا اور اس کو میری جگہ کا پتہ چل گیا تو اپنے بندوں کو بھیج کر مجھے گرفتار کرا لیا۔
جب میں اس کے پاس پہنچا تو اس نے کہا: ’’کب سے میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا تھا کہ وہ مجھ کو تم پر قابو دیدے۔‘‘
میں نے کہا: ’’میں بھی خدا کی قسم! کب سے خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھ کو تم سے بچائے۔‘‘
یزید نے کہا: ’’تو خدا تعالیٰ نے تم کو مجھ سے نہیں بچایا۔ خدا کی قسم! میں تم کو قتل کروں گا، اگر ملک الموت بھی مجھ سے تمہاری روح قبض کرنے میں سبقت کرنے لگے تو میں اس سے بھی سبقت کرلوں گا۔‘‘
پھر اس نے تلوار اور چمڑے کا فرش منگایا تو وہ دونوں چیزیں اس کے سامنے حاضر کر دی گئیں۔ اس نے میرے بارے میں حکم دیا تو مجھ کو چمڑے کے فرش پر کھڑا کر دیا گیا، میرے ہاتھوں کو کندھوں کے پیچھے باندھ دیا گیا اور میرا سر بھی باندھ دیا گیا اور میرے پیچھے ایک آدمی ننگی تلوار لے کر کھڑا ہو گیا، وہ میری گردن اڑانے والا ہی تھا کہ اتنے میں نماز کھڑی ہو گئی۔
تو یزید نے کہا: اس کو ابھی چھوڑ دو، تاکہ میں نماز پڑھ لوں اور یہ کہہ کر وہ نماز کے لیے نکل پڑا۔
پھر جب وہ سجدے میں گیا تو اچانک کچھ لوگوں نے اس پر حملہ کر کے اس کو قتل کر دیا، اس کے بعد میرے پاس ایک آدمی آیا، جس نے میرے ہاتھ اور سر کی رسی کو کھول دیا اور میں صحیح سلامت لوٹ آیا۔
(الفرج بعد الشدۃ و الضیقۃ، لابراہیم الحازمی: ص 150)
حافظ ابن جریر طبریؒ اور خلیفہ مقتدر
عباسی خلیفہ مقتدر نے ایک مرتبہ کسی جائیداد کو وقف کرنے کا ارادہ کیا، لیکن وہ چاہتا تھا کہ وقف نامہ اس طرح مرتب کیا جائے کہ وقف کی شرائط تمام فقہاء کے مذہب کے مطابق درست ہو جائیں اور اس میں کوئی اختلاف کی گنجائش نہ رہے۔
لوگوں نے کہا کہ یہ کام صرف علامہ ابن جریر طبریؒ ہی انجام دے سکتے ہیں، کیونکہ ان کے سوا ایسا آدمی ملنا مشکل ہے، جسے تمام فقہاء کے مذاہب پوری طرح مستحضر ہوں۔ چنانچہ مقتدر نے حافظ ابن جریرؒ سے اس وقت ایسا وقف نامہ مرتب کرنے کی درخواست کی۔ حافظ ابن جریرؒ نے وقف نامہ مرتب کر دیا۔ اس سے خلیفہ کو ان کے مقام بلند کا اندازہ ہوا اور اس کے بعد اس انہیں اپنے دربار میں اونچا مرتبہ عطا کیا اور ان کی صحبت سے مستفید ہونے لگا۔
خلیفہ ان سے بار بار کہتا کہ آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو، مجھے سے طلب کر لیا کیجیے۔ لیکن حافظ ابن جریرؒ نے یہ اصرار دیکھا تو فرمایا کہ ’’میری صرف ایک ضرورت ہے اور وہ یہ کہ جمعہ کے دن جامع مسجد میں گدا گر بہت گھس آتے ہیں اور اس سے نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ امیر المومنین سے میرا صرف یہ سوال ہے کہ وہ شرطہ (پولیس) کے لوگوں کو اس بات کا حکم جاری کریں کہ وہ گدا گروں کو اندر نہ جانے دیا کریں۔‘‘ خلیفہ نے یہ حکم جاری کردیا۔ (البدایہ و النہایہ ص 146 ج 11)
امام ابو حنیفہؒ اور ایک اعرابی
یحیٰ بن جعفرؒ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے مجھے اپنا ایک واقعہ سنایا۔ فرمایا کہ ایک مرتبہ بیابان میں مجھے پانی کی شدید ضرورت لاحق ہوئی۔ میرے پاس ایک اعرابی آیا، اس کے پاس پانی کا ایک مشکیزہ تھا۔ میں نے اس سے پانی مانگا، اس نے انکار کیا اور کہا کہ پانچ درہم میں دوں گا۔ میں نے پانچ درہم دے کر وہ مشکیزہ لے لیا۔ پھر میں نے اس سے کہا کہ ’’ستو کی طرف کچھ رغبت ہے؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’لائو‘‘ میں نے اس کو ستو دے دیا، جو روغن زیتون سے چرب کیا گیا تھا۔ وہ خوب پیٹ بھر کر کھا گیا، اب اس کو پیاس لگی تو اس نے کہا کہ ایک پیالہ پانی دے دیجیے۔ میں نے کہا کہ پانچ درہم میں ملے لگا، اس سے کم میں نہیں اور اس طرح اس کو وہ پانچ درہم دینے پڑے۔ (لطائف علمیہ، ترجمہ اردو کتاب الاذکیاء ابن جوزی ص 110) ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More