شہزادےکا سبق آموز واقعہ

0

مجھے چند اہم وصیتیں کرکے اس کی روح نکل گئی۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ یہ لڑکا شہزادہ تھا۔ اس کے انتقال کے بعد اس کی وصیت کے موافق میں نے اس کو دفن کر دیا اور دونوں چیزیں گورکن کو دے دیں اور قرآن پاک اور انگوٹھی لے کر بغداد پہنچا اور قصر شاہی کے قریب پہنچا تو بادشاہ کی سواری نکل رہی تھی۔
میں ایک اور اونچی جگہ کھڑا ہو گیا۔ اول ایک بہت بڑا لشکر نکلا جس میں تقریباً ایک ہزار گھوڑے سوار تھے۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے دس لشکر نکلے۔ دسویں جتھے میں خود امیر المؤمنین بھی تھے۔ میں نے زور سے آواز دے کر کہا اے امیر المؤمنین آپ کو حضور اقدسؐ کی قرابت داری کا واسطہ، ذرا سا توقف کر لیجئے۔
میری آواز پر انہوں نے مجھے دیکھا تو میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر کہا کہ میرے پاس ایک پردیسی لڑکے کی یہ امانت ہے، جس نے مجھے یہ وصیت کی تھی کہ یہ دونوں چیزیں آپ تک پہنچا دوں۔ بادشاہ نے ان کو دیکھ کر (پہچان لیا) تھوڑی دیر سر جھکایا، ان کی آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے اور ایک دربان سے کہا کہ اس آدمی کو اپنے پاس رکھو۔ جب میں واپسی پر بلائوں تو میرے پاس پہنچا دینا۔
جب ہارون الرشید باہر سے مکان پر واپسی پر پہنچے، تو محل کے پردے گروا کر دربان سے فرمایا: اس شخص کو بلا کر لائو، اگرچہ وہ میرا غم تازہ ہی کرے گا۔ دربان میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ امیر المؤمنین نے بلایا ہے اور اس کا خیال رکھنا کہ امیر پر صدمہ کا بہت اثر ہے۔ اگر تم دس باتیں کرنا چاہتے ہو، تو پانچ ہی پر اکتفا کرنا۔ یہ کہہ کر وہ مجھے امیر کے پاس لے گیا۔ اس وقت امیر بالکل تنہا بیٹھے تھے۔ مجھ سے فرمایا کہ میرے قریب آجائو۔ میں قریب جاکر بیٹھ گیا۔
کہنے لگے: تم میرے اس بیٹے کو جانتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں! جانتا ہوں۔ کہنے لگے: وہ کیا کام کرتا تھا؟ میں نے کہا: گارے مٹی کی مزدوری کرتے تھے۔ کہنے لگے: تم نے بھی مزدوری پر کوئی کام اس سے کرایا تھا؟ میں نے کہا: کرایا ہے۔ کہنے لگے کہ تم کو اس کا خیال نہ آیا کہ اس کی نبی اکرمؐ سے قرابت تھی (کہ یہ حضورؐ کے چچا حضرت عباسؓ کی اولاد میں ہیں)
میں نے کہا امیر المؤمنین! پہلے حق تعالیٰ جل شانہ سے معذرت چاہتا ہوں، اس کے بعد آپ سے عذر خواہ ہوں، مجھے اس وقت اس کا علم ہی نہ تھا کہ یہ کون ہے؟ مجھے ان کے انتقال کے وقت ان کا حال معلوم ہوا۔
کہنے لگے کہ تم نے اپنے ہاتھ سے اس کو غسل دیا؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ کہنے لگے: اپنا ہاتھ لائو۔ میرا ہاتھ لے کر اپنے سینے پر رکھ دیا اور چند شعر پڑھے، جن کا ترجمہ یہ ہے:
اے وہ مسافر جس پر میرا دل پگھل رہا ہے اور میری آنکھیں اس پر آنسو بہا رہی ہیں۔ اے وہ شخص جس کا مکان (قبر) دور ہے، لیکن اس کا غم میرے قریب۔ بے شک موت ہر اچھے سے اچھے عیش کو مکدر کر دیتی ہے۔ وہ مسافر ایک چاند کا ٹکڑا تھا (یعنی اس کا چہرہ) جو خالص چاندی کی ٹہنی پر تھا (یعنی اس کے بدن پر) پس چاند کا ٹکڑا بھی قبر میں پہنچ گیا اور چاندی کی ٹہنی بھی قبر میں پہنچ گئی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More