ضیاء الرحمٰن چترالی
بالآخر باہور کے والد سے بات چیت کا دن آ ہی گیا، اس دن میں بہت پریشان تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ گویا پرائمری کا ایک بچہ سخت امتحان سے گزر رہا ہو۔ پھر دل کو خود ہی تسلی دی کہ آخر میں کیوں کر اتنا پریشان ہوں، یہ تو انتہائی آسان کام ہے، خود کو تسلی دیتے ہوئے میں اپنے طبی مرکز چلا گیا اور وہاں سے فراغت کے بعد باہور کو لے کر اس کے گھر چلا آیا۔
باہور کے والد سے ان کے گھر پر ہی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔ سوال جواب کی ابتدا انہوں نے ہی کی۔ مجھ سے پوچھا کہ میرا نام کیا ہے، جس پر میں ’’ڈاکٹر‘‘ کہہ کر خاموش ہو گیا۔ اس پر باہور کے والد نے بتایا کہ قرآن کریم نے انسان کی پیدائش اور اس کی بناوٹ کے تمام مراحل کو تفصیل سے بیان کیا ہے، اس پر میں نے یک دم پوچھا، وہ کیسے؟
انہیں گویا اس جملے کا انتظار تھا۔ انہوں نے اپنے دھیمے اور میٹھے لہجے میں مجھے اس حوالے سے پوری معلومات فراہم کر دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے لہجے اور زبان کی مٹھاس میرے دل میں اتر رہی تھی۔ قرآن کو دیکھنے پر میری حیرت میں اضافہ ہوا۔ اس کتاب میں انسانی جین اور بچے کی نشوونما و پیدائش کے وہ تمام مرحلے تفصیلاً مذکور تھے، جنہیں ہم نے یونیورسٹی اور کالجوں میں پڑھا تھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں اس کتاب میں چودہ سو سال قبل بیان کی گئی تھیں۔ جبکہ طبی ماہرین اب اس حقیقت تک پہنچے ہیں۔ اسی لیے میں یہ پڑھ کر انتہائی مرعوب ہوا، بلکہ بوڑھے کا ہر لفظ مجھے روحانی طور پر تسکین دے رہا تھا۔
باہور کے والد سے ملاقات کے بعد میں ذہنی طور پر کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ میرے دل اور دماغ میں طوفان برپا ہو گیا تھا، میں خوف اور دباؤ کے باعث رات بھر نہ سو سکا۔ بہت سوچ بچار کے بعد پہلے کی طرح خود کو تسلی دے کر سونے کی کوشش کی۔ بالآخر مجبور ہو کر میں نے بعض طبی مسائل کے حل کیلئے اپنی ٹیم ورکرز کے کام بڑھا دئیے، جبکہ خود میں نے تحقیقات اور مطالعے کے لیے وقت نکالا تاکہ اپنے مشن کی کامیابی کیلئے کوئی راستہ نکال سکوں۔
بار بار سوچتا کہ یقیناً مجھے صومالیہ اور یہاں کے لوگوں سے محبت ہے، لیکن اپنے دین (عیسائیت) سے مجھے جنون کی حد تک محبت ہے تو کیوں نہ ان معصوم اور سچے لوگوں کو اپنے دین کی جانب بلاؤں۔
چند دنوں کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ باہور کے والد سے ایک بار پھر ملوں، تاہم میرے مطالبے سے قبل ہی باہور نے مجھ سے تقاضا کیا کہ اگر میرے لیے ممکن ہو تو میں روزانہ اس کے گھر جا کر اس کے والد سے مل لوں۔ باہور نے بتایا کہ اس کے والد نے مجھ سے متاثر ہو کر روزانہ ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ پہلے تو میں ان کی اس درخواست پر بہت خوش ہوا، کیوں کہ یہی سب کچھ تو میں چاہتا تھا، تاہم بعد ازاں دل میں سوچا کہ جب میں نے ان پر اب تک کوئی اثر ہی نہیں ڈالا ہے تو پھر ان سے مزید ملاقاتوں کے ذکر سے کیوں خوش رہا ہوں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post