خلاصہ تفسیر
(ان آیتوں میں دو باغوں کا ذکر وَلِمَنْ خَافَ سے شروع ہوا ہے اور دو باغوں کا ذکر وَمِنْ دُوْنھِمَا سے۔ پہلے دو باغ خواص مقربین کے ہیں اور پچھلے دو باغ عامہ مومنین کے لئے۔ دلائل اس تعیین و تقسیم کے آگے لکھ دیئے جاویں گے، یہاں صرف تفسیر لکھی جاتی ہے، پچھلی آیات میں مجرمین کی سزاؤں کا ذکر تھا، یہاں سے مومنین صالحین کی جزا کا ذکر شروع ہوتا ہے) اور (اہل جنت کا حال یہ ہے کہ ان میں دو قسم ہیں، خواص اور عوام پس) جو شخص (خواص میں سے ہو اور) اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے (ہر وقت) ڈرتا رہتا ہو (اور ڈر کر شہوات و معاصی سے مجتنب رہتا ہو اور یہ شان خواص ہی کی ہے، کیونکہ عوام پر تو گاہ گاہ خوف طاری ہو جاتا ہے اور کبھی ان سے معاصی بھی سر زد ہو جاتے ہیں، گو توبہ کرلیں، غرض جو شخص ایسا متقی ہو) اس کے لئے (جنت میں) دو باغ ہوں گے (یعنی ہر متقی کے لئے دو باغ اور غالباً اس تعدد میں حکمت ان کے تکرم اور تنعم کا اظہار ہوگا، جس طرح دنیا میں اہل تنعم کے پاس اکثر چیزیں منقولات و غیر منقولات میں سے متعدد ہوتی ہیں) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے؟ (اور وہ) دونوں باغ کثیر شاخوں والے ہوں گے (اس میں سائے کی گنجانی اور ثمرات کی کثرت کی طرف اشارہ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے؟ (اور) ان دونوں باغوں میں دو چشمے ہوں گے کہ (دور تک) بہتے چلے جاویں گے۔ سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے؟ (اور) ان دو باغوں میں ہر میوہ کی دو قسمیں ہوں گی (کہ اس میں زیادہ تلذذ ہے، کبھی ایک قسم کا مزہ لے لیا، کبھی دوسری قسم کا) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے؟ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭