استاد کا رتبہ! (آخری حصہ)

0

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
میں ان طالبات میں سے تھی، جو استاد کے سامنے نظر ملا کر بات کرنا بھی گستاخی سمجھتی ہیں، کہاں یہ کہ میں ان کے سامنے کرسی پر براجمان رہوں۔ وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی تھیں، میں بے ساختہ مؤدب کھڑی ہوگئی تھی۔ استاد کا ادب کرنا انہوں نے ہی سکھایا تھا۔ وہ چند لمحے کے لیے حیران ہو گئیں، میں چاہتی تھی کہ میں اپنے آپ کو ان کے سامنے ظاہر کر دوں کہ میں وہی آپ کی نااہل اور نالائق شاگرد ہوں، جس کو آپ نے اپنی زندگی کے بے شمار قیمتی سال دے کر اس قابل بنایا کہ میں آج اپنے شہر کی ایک قابل وکیل کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہوں اور یہ آپ کی وجہ سے ہوا، میں تو میٹرک بھی کرنے کے قابل نہیں تھی۔ میرے گھر کے حالات اس قابل نہیں تھے کہ میں تعلیمی اخراجات برداشت کر سکتی۔ آپ اپنی ہر طالبہ کے گھریلو حالات سے بخوبی واقف رہتی تھیں۔ نہ جانے کب آپ نے میٹرک میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے پر ایک خطیر رقم میری امی کے اکائونٹ میں جمع کرا دی اور مجھے سمجھا بجھا کر کالج میں داخل کرا دیا۔ اب وہ وقت آگیا ہے جب میں آپ کے احسانات کا بدلہ اتارنے کی تھوڑی سی جسارت کر سکتی ہوں۔ بغیر اپنا تعارف کرائے ایک استاد کے لیے شاگردوں کو یاد رکھنا مشکل کام ہے، کیونکہ اس کے پڑھائے ہوئے بے شمار بچے ہر سال تعلیمی منازل طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ طالبات کے لیے اچھے استاد کو یاد رکھنا بہت آسان ہے، میں جانتی ہوں کہ آپ میرا احسان لینا کبھی پسند نہیں کریں گی، میں بالکل خاموش تھی، بس کرسی پر مستقل پہلو بدل رہی تھی۔ ’’آپ مجھے مشورہ دیں میں کیا کروں…؟‘‘ وہ مجھ سے پوچھ رہی تھیں۔ مجھے یاد آیا، انہوں نے میٹرک پاس کرنے پر میرے سوال پر ’’میں کیا کروں؟‘‘ مجھے بہت پیار سے سمجھایا تھا۔ ’’آپ مزید تعلیم حاصل کریں اور پھر بہت اچھی وکیل بن جائیں؟‘‘ انہوں نے مسکرا کر کہا تھا۔ ان کی امید افزا مسکراہٹ نے میرا حوصلہ بڑھا دیا تھا۔ وکیل ہی کیوں؟ میں نے حیرت سے سوال کیا۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کیونکہ آپ دلیل سے بات کرتی ہیں؟ اب میں صرف انہی کی فرمائش پر انہی کے حوصلہ دلانے پر وکیل کی کرسی پر بیٹھی تھی۔ میں نے انتہائی ادب سے ان سے کہا آپ اپنی سروس بک اور پنشن کے کاغذات مجھے دے دیجئے۔ میں جلد ہی آپ کو اچھی خبر سنائوں گی۔ ان کی آنکھیں جھلملانے لگیں۔ پرس سے رومال نکال کر آنکھیں صاف کرتے ہوئے آہستہ سے مجھ سے پوچھا ’’آپ کی فیس؟‘‘ ’’میں اپنے اساتذہ کا کام بلامعاوضہ کرتی ہوں۔‘‘ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا، میری نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنی سروس بک اور کاغذات واپس بیگ میں رکھ لیے۔ ’’سوری میں بلامعاوضہ کام کروانا پسند نہیں کرتی۔‘‘ وہ جانے کے لیے کھڑی ہو گئیں۔ ’’میں نے آپ کا بہت وقت لیا۔‘‘ میں تڑپ کر کھڑی ہو گئی، کرسی چھوڑ کر ان کے پاس آگئی۔ میرا دل ان کے سینے سے لگ جانے کے لیے بے قرار ہو رہا تھا۔ میں نے بے ساختگی سے ان کے دونوں ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں سے لگا لیے۔ ’’میڈم آپ مجھے شرمندہ کررہی ہیں، آج میں جو کچھ بھی ہوں، جس مقام پر بھی ہوں، اساتذہ کی عنایت کی وجہ سے ہوں۔ آپ سب اساتذہ نے ہی مجھے کسب علم سے فیض یاب کیا۔‘‘ وہ حیران تھیں۔ میری آنکھوں میں عقیدت و احترام کے آنسو تھے۔ ’’میرا یہ مقام یہ عزت سب آپ کی وجہ سے ہے۔‘‘ میں نے ان کے لرزتے ہاتھوں کو تھام کر اپنے سر پر رکھ لیا۔ آپ محترم مہربان اور شفیق اساتذہ، آپ نے مجھ جیسی کتنی ہی طالبات پر بلامعاوضہ احسانات کئے۔ کیا میں اب اس قابل بھی نہیں کہ ان احسانات میں سے تھوڑا سا حصہ آپ کو لوٹا سکوں، جبکہ میں یہ آسانی سے کر سکتی ہوں۔ خدا نے چاہا تو میں آپ کا حق دلوا کر رہوں گی۔ خواہ اس کے لیے مجھے کسی شخص کو بھی عدالت میں گھسیٹنا پڑے، کتنے ہی اوپر جانا پڑے، آپ بالکل پریشان نہ ہوں، اب آپ بے فکر ہو کر گھر تشریف لے جائیں، کہیں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں آپ کو جلد ہی اچھی خبر سنائوں گی۔‘‘ میری آواز بھیگی ہوئی تھی۔ انہوں نے سروس بک اور کاغذات میری طرف بڑھا دیئے۔ ’’جیتی رہئے۔ خدا آپ کو حق کی آواز بلند کرنے کا حوصلہ بخشے، آپ نے مایوسی کے اندھیروں میں روشنی کی کرن بن کر مجھے حوصلہ دیا ہے۔ خدا آپ کا ساتھ دے۔‘‘ وہ تیزی سے کمرے سے نکل گئیں۔ میں نے اسی تیزی سے موبائل پر ڈرائیور کو ہدایت دی اور خود کھڑکی کا پردہ ہٹا کر نیچے دیکھنے لگی، جہاں میرا ڈرائیور میڈم آسیہ کے لیے دروازہ کھولے کھڑا تھا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More