تیل پھیلنے سے 7 ساحلی آبادیوں کو خطرہ – مچھلیاں ناپید

0

کراچی(رپورٹ:حسام فاروقی)بائیکو آئل ریفائنری کی نا اہلی کےباعث مبارک ویلج کےساحل پرآنے والا خطرناک کیمیکل ملاتیل کا فضلہ مزید 6 ساحلی آبادیوں تک پہنچ گیا، سمندر میں کئی میل تک مچھلیاں ناپیدہو گئیں۔متاثرین کے مطابق مبارک ویلج سے آگے سمندر میں ایک فیول فلنگ اسٹینڈ بنا ہوا ہے جہاں سے بائیکوآئل ریفائنری تک پائپ لائن بچھائی گئی ہے جو کسی مقام سے لیک ہوئی۔بلوچستان سے آنیوالی تحقیقاتی ٹیم نے ہماری بات نہیں سنی۔شدید بدبو کے باعث سانس لینا دشوار ہے۔جلدی بیماریاں بھی پھیلنا شروع ہو گئیں۔ماہی گیروں کی کشتیاں اور جال خراب ہونے سے لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔تفریحی مقامات پرلوگوں کے نہ آنے سے ہوٹلوں اور دکانوں کوتالے لگ گئے۔ آلودگی اوربیروزگاری کی صورتحال6 ماہ تک برقرار رہنے کا خطرہ ہے۔تفصیلات کے مطابق جمعرات کی شام مبارک ویلج کے ساحل پر اچانک تیل کا فضلہ آنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو اب بھی جاری ہے اور اب یہ فضلہ مبارک ویلج کے ساتھ ساتھ مزید 6آبادیوں کو بھی متاثر کر رہا ہے جس میں سینڈز پٹ ، منجھار گوٹھ، سنہرا پوائنٹ، بٹگوڈی، عبدالرحمن گوٹھ اور نتھیا گلی شامل ہیں ، مبارک ویلج کے مکینوں نے اس واقعے کی مکمل ذمہ دار ساحلی آبادی سے کچھ دور قائم بائیکو آئل ریفائنری کو قرار دیا ہے کیونکہ مبارک ویلج سے آگے سمندر کے بیچ میں ایک فیول فلنگ اسٹینڈ بنا ہوا ہے جو بلوچستان کی حدود میں آتا ہے اور اس اسٹینڈ سےبائیکو آئل ریفائنری تک سمندر کے اندر ایک پائپ لائن بچھائی گئی ہے جس کا کام آئل لے کر فیولنگ اسٹیشن تک آنے والے جہازوں کا خام تیل بائیکو آئل ریفائنری تک پہنچانا ہے۔سیکورٹی اوردیکھ بھال کا خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کے باعث یہ لائن کسی مقام سے لیک ہوئی اور تیل نکل کر سمندر میں شامل ہو گیا ۔متاثرین کے مطابق متاثرہ ساحلی آبادیوں کے سروے کیلئے آنیوالی بلوچستان کے محکمہ ماحولیات کی تحقیقاتی ٹیم نے ہماری کوئی بات نہیں سنی اور توجہ صرف اس جانب مبذول کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ یہ کارستانی کسی گزرنے والے جہاز کی ہے۔متاثرین کے مطابق در حقیقت یہ کارنامہ بائیکو آئل ریفائنری کا ہی ہے کہ یا تو اس کی لائن لیک ہوئی ہے یا پھر اس نے خام تیل کا آخر میں بچ جانے والا فضلہ سمندر میں ٹھکانے لگایا ہے۔مبارک ویلج کے مقامی افراد کا بلوچستان حکومت کے محکمہ ماحولیات کی جانب سے دئیے جانے والے بیان پر ردعمل میں کہنا تھا کہ اس راستے سے کوئی بھی جہاز نہیں گزرتا ۔ محکمہ ماحولیات بلوچستان کی ٹیم بائیکو آئل ریفائنری کی اس غفلت پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے جس کی وجہ صرف اور صرف مفاد حاصل کرناہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جن آبادیوں کو نقصان ہوا ہے وہ کراچی کی حدود میں آتی ہیں تو پھر ان کا سروے بلوچستان کا محکمہ ماحولیات کیوں کر رہا ہے ، اس معاملے کو سندھ کی سطح پر دیکھنا چاہئے اور اس کی تحقیقات بھی سندھ کے ادارے کریں تاکہ اصل حقائق سے پردہ اٹھ سکے ۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ تیل کی وجہ سےآبی حیات کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے اور مزکورہ ساحلی آبادیوں سے کئی میل تک سمندر میں مچھلیاں ناپید ہوگئی ہیں ، یہ سلسلہ سمندر کے مکمل طور پر صاف ہو جانے تک جاری رہے گا جس میں 6ماہ یا اس سے زیادہ کا عرصہ لگ سکتا ہے ، اس دوران مچھیرے شکار نہیں کر پائیں گے جس سے ماہی گیروں کو بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا ، کشتیاں اور لاکھوں روپے مالیت کے جال خراب ہو چکے ہیں۔ساحلی آبادیوں میں تیل کی شدید بدبو سے سانس لینا دشوار ہےجلدی بیماریاں پھیل رہی ہیں جبکہ تفریحی مقامات پر لوگوں نے آنا چھوڑ دیا ہے جس سے ہوٹلوں اور دکانوں کو تالے لگ گئے ہیں۔ تیل صاف ہونے تک نہ تو کوئی ماہی گیر کشتی لے کر جا سکتا ہے اور نہ ہی خراب ہونے والے جال ٹھیک کئے جا سکتے ہیں ،اگر ساحل پر موجود تیل کو جلد سے جلد صاف نہیں کیا گیا تو سمندر کے پانی کے چڑھنے پر یہ سارا تیل سمندر میں مزید کئی میل تک پھیل سکتا ہے جس سےنقصان کئی گنا زیادہ ہوگا ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More