ہاروت ماروت
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت آدمؑ کے بعد لوگ گناہوں اور انکار خدا میں مبتلا ہو گئے تو فرشتوں نے آسمان میں (رہتے ہوئے) کہا: اے اس جہان کے پروردگار! آپ نے تو ان کو اپنی عبادت و اطاعت کے لیے تخلیق کیا تھا، یہ تو گناہوں میں پڑ گئے اور کفر کرنے، زندوں کو قتل کرنے، مال حرام کھانے، زنا اور چوری کرنے اور شراب نوشی میں مبتلا ہو گئے، پھر ان کے لیے بددعا کرنے لگ گئے اور ان کا کوئی عذر قبول نہیں کرتے تھے۔ تو انہیں تنبیہہ کی گئی کہ وہ پردہ میں ہیں، ان کا یہ عذر قابل قبول ہے، پھر انہیں کہا گیا (اگر تم یہ عذر قبول نہیں کرتے تو) اپنے سے افضل ترین فرشتے منتخب کر لو، میں انہیں (کچھ باتوں کا) حکم دیتا ہوں اور (کچھ باتوں سے) منع کرتا ہوں۔
انہوں نے ہاروت اور ماروت کو منتخب کیا۔ تو انہیں زمین پر اتار دیا گیا، ان کی انسانوں جیسی خواہشات بنا دی گئیں اور انہیں حکم دیا کہ وہ صرف اسی (خدا) کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے اور انہیں نفس حرام کے قتل سے اور مال حرام کے کھانے سے، زنا، چوری اور شراب نوشی سے منع کیا گیا۔ تو یہ زمین مین ایک زمانے تک لوگوں میں حق کے فیصلے کرتے رہے۔
یہ حضرت ادریسؑ کا زمانہ تھا، اسی زمانے میں ایک عورت تھی، اس کا حسن عورتوں میں اس طرح تھا، جس طرح زہرہ (ستارے) کا سب ستاروں میں ہے۔ تو یہ دونوں اس کے پاس پہنچے اور اس کے ساتھ بات میں نرمی کی اور اس کے بدن کا ارادہ کیا تو اس نے انکار کر دیا۔ مگر یہ کہ وہ اس کی بات مانیں اور اس کے دین پر چلیں، جب انہوں نے اس کے دین کے بارے میں پوچھا تو اس نے اپنا ایک بت نکالا اور کہنے لگی: یہ ہے، میں اس کی عبادت کرتی ہوں۔ تو انہوں نے جواب دیا: ہمیں اس کی عبادت کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔ یہ کہہ کر چلے گئے۔ جب تک خدا نے چاہا غائب رہے۔
اس کے بعد پھر اس عورت کے پاس آئے اور اس کا ارادہ کیا تو بھی اس (عورت) نے ویسا ہی کیا، وہ پھر چلے گئے۔ اس کے بعد جب آئے تو اس کے بدن کا ارادہ کیا تو اس نے جب دیکھا کہ انہوں نے بت پرستی سے انکار کر دیا تو کہنے لگی (اچھا تو پھر ان) تین باتوں میں سے کوئی سی پسند کر لو یا تو اس بت کی عبادت کرو یا اس آدمی کو قتل کرو یا شراب پی لو، تو انہوں نے کہا یہ سب شرطیں پوری کرنے کی (تو) نہیں، لیکن ان تینوں میں شراب نوشی کم گناہ ہے تو انہوں نے شراب پی تو عقل جاتی رہی، پھر یہ عورت پر واقع ہوئے۔ پھر انہیں خطرہ لگا کہ انسان ان کے گناہ کی اطلاع نہ کر دے، تو انہوں نے اسے قتل کر ڈالا۔
جب ان کا نشہ ہرن ہوا اور پتہ چلا کہ وہ کس گناہ میں ملوث ہوئے۔ تو انہوں نے آسمان کی طرف عروج کا ارادہ کیا تو توفیق نہ ہوئی، ان کے اور آسمان کے درمیان رکاوٹ آگئی اور فرشتوں اور ان کے درمیان سے پردہ ہٹا دیا گیا تو فرشتوں نے اس کو دیکھ لیا، جس میں وہ مبتلا ہوئے تھے تو وہ ششدر رہ گئے اور پہچان ہو گئی کہ جو پردے میں ہو (خدا کے سامنے نہ ہو) اس میں (خدا کا) خوف بہت کم ہوتا ہے۔ اس کے بعد سے زمین کے سب (مؤمنین) کے لیے استغفار کرنے لگ گئے۔ انہیں (ہاروت و ماروت کو) کہا گیا، دنیا کا عذاب یا آخرت کا عذاب چن لو (تو انہوں نے سوچا کہ) عذاب دنیا تو ختم ہونے اور مٹ جانے والا ہے، لیکن عذاب آخرت کبھی ختم نہیں ہو گا، تو انہوں نے عذاب دنیا کو چن لیا تو انہیں بابل میں (قید) کر دیا گیا اور وہ اب تک عذاب میں مبتلا ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post