محترم معین کمالی ایک پختہ کار کالم نگار ہیں اور برادرم مظفر اعجاز روزنامہ جسارت کے ایڈیٹر ہیں۔ باقاعدگی سے مختلف قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر قلم کاری کرتے ہیں۔ ’’یادیں باقی ہیں‘‘ کے عنوان سے محترم معین کمالی کی کتاب انہیں کالموں کا مجموعہ ہے، جو روزنامہ امت میں شائع ہو چکے ہیں۔ قارئین کے لیے قند مکرر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جناب معین کمالی نے بیالیس سے زیادہ شخصیتوں کے خاکے لکھے ہیں۔ جس میں اپنے وقت کے نابغہ روزگار شخصیتوں کے خاکے بھی ہیں، جن میں حضرت مولانا حسرت موہانی، مولانا عبد السلام نیازی، سجاد ظہیر، مشفق خواجہ، عبد الکریم عابد اور جنرل حمید گل شامل ہیں اور اپنے دور کے ’’صحافتی قطب میناروں‘‘ کا تذکرہ بھی کیا ہے، جن میں محمد صلاح الدین شہید، عرفان غازی اور نیئر علوی شامل ہیں۔ بہت سادہ اور عام فہم انداز میں ان شخصیتوں کا سراپا بیان کیا۔ اخباری دنیا سے تعلق رکھنے والے جن حضرات نے ان بزرگوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ ان کے زیر تربیت رہے ہیں، وہ حضرات بھی، جنہوں نے عام زندگی میں ان سے معاملہ کیا ہے، وہ ان خاکوں کو پڑھ کر اس بات کی تائید کریں گے کہ جناب معین کمالی نہ کسی سے مرعوب ہو کر بے جا تعریف کرتے ہیں، نہ تعلق خاطر میں کمی کے سبب اس کی خوبیوں سے صرف نظر کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں جن کا تذکرہ ہے، وہ چلتے پھرتے، گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی تحریریں سادگی و پرکاری کا مجموعہ ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ معین کمالی کون ہیں؟ سو اس کے بارے میں ہماری رائے جتنی بھی غیر جانبدارانہ ہو، بہرحال ہم ایک ہی ادارے میں کام کرتے ہیں، ہمارا ہم خیال ہونا بھی واجب ہے اور اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو تب بھی ادارے کی پالیسی کے تحت ہم خیالی لازم ہو جاتی ہے۔ ساتھ ساتھ بیٹھنے اور اوپر نیچے ہماری تحریروںکی اشاعت لحاظ و مروت کی متقاضی ہے۔ سو آیئے ایک صاحب علم اور تحریر کے غازی جناب ڈاکٹر محمد محسن سے رجوع کرتے ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ ’’معین کمالی ہمارے زمانہ طالب علمی کے دوستوں میں سے ہیں، انتہائی مخلص، صاف دل، صاف گو، باضمیر، انسان دوست، خوش اخلاق، خوش گفتار اور ہنس مکھ، دیکھنے میں دھان پان، بے باکی، آہنی چٹان، دبلے پتلے، میانہ قد، مختصر اور جامع، ہر سال تصویر کھنچواتے ہیں۔ بظاہر جوانی سے لے کر آج تک کسی تصویر میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ آج کل اولڈ از گولڈ کے مصداق چالیس سال پرانی تصویر سے مسلسل کام چلا رہے ہیں۔ برسوں بعد کوئی ملتا ہے تو دیکھتے ہی کہتا ہے دنیا بدل گئی، آپ نہیں بدلے۔ واقعی نہیں بدلے۔ عادتاً، شکلاً، مطالعے کے شوقین لکھنے کے عادی۔‘‘ اپنے بارے میں معین کمالی صاحب کہتے ہیں کہ ’’ابن انشا… مشفق خواجہ کے علاوہ اشفاق احمد کی تحریروں سے متاثر ہی نہیں مرعوب بھی رہا، اب یہ تینوں ہستیاں اللہ کو پیاری ہو چکیں اور مجھے ان کا کوئی نعم البدل تو کیا معمولی بدل بھی نظر نہیں آتا، افسانوں میں انتظار حسین کا انداز اور زبان بہت پسند ہے۔ صحافت کی دنیا میں جناب نثار زبیری کے علم و فن اور کردار کی بلندی نے بہت متاثر کیا، اس کے بعد محمد صلاح الدین شہید کے ساتھ کام کرنے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔‘‘ 240 صفحات پر مشتمل یہ کتاب میڈیا ٹارگٹس… A2 الائنس آرکیڈ گلستان جوہر کراچی نے شائع کی ہے۔
برادرم مظفر اعجاز کی کتاب ’’قلمرو‘‘ پر بات ہو جائے۔ یہ کالموں کا مجموعہ ہے، جو ان کی زیرادارت شائع ہونے والے روزنامہ ’’جسارت‘‘ میں چھپ چکے ہیں۔ مظفر اعجاز اتنے عمر رسیدہ نہیں ہیں، جتنے وہ اپنی تحریروں میں نظر آتے ہیں۔ ان کی تحریر کی پختگی، مختلف مسائل پر ان کی گہری نظر اور ان پر مثبت اور منفی انداز میں اظہار رائے، ان کے گہرے مطالعے اور کتاب سے ان کے لگائو اور لگن کا نتیجہ ہے اور کتاب سے ربط و تعلق انہیں ورثے میں ملا ہے، وہ ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں وقت کا بہترین مصرف مطالعہ ہے۔ آج کل مطالعے کا شوق جس قدر کم ہو رہا ہے، تحریر میں پختگی عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے یہاں ایسے دانشور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں، جو تاریخ، جغرافیہ سے نابلد ہیں۔ فرمان ان کا یہ ہے کہ کتاب پڑھنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، جس کی ہمارے یہاں قلت ہے۔ بہرحال مظفر اعجاز ایک پڑھے لکھے اخبار نویس ہیں۔ اس لیے لکھنا بھی ان کو زیب دیتا ہے اور ان کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے ایک کیف اور لذت حاصل ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post