جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ
سابق چیف آف آرمی اسٹاف، پاکستان
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو کرکٹ کے بارے ایک کتاب پیش کرنے کا پس پردہ مقصد لندن کی مڈل ایسٹ آئی (MEE) نامی ویب سائٹ کیلئے ان کا انٹرویو لینا تھا۔ عمران خان نہیں جانتے تھے کہ وہ جرنلسٹ تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے ان کے سوالوں کے آزادانہ ماحول میں جواب دیئے، جو ان کی شخصیت کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ ابھی تک ہم نے انہیں ڈی چوک میں کنٹینر پر کھڑے ہو کر یا جلسے، جلوسوں اور بحیثیت وزیر اعظم قوم سے خطاب کرتے اور نواز شریف کی حکومت کی بدعنوانیوں اور ملکی اقتصادی حالت زار پر بات کرتے سنا ہے، لیکن نئے پاکستان کے بارے میں بہت کم سنا ہے، جس طرح انہوں نے بنی گالہ میں ان جرنلسٹوں کے سوالوں کے مدلل اور منطق پر مبنی جواب دیئے، ان سے ان کی شخصیت صحیح روپ میں نظر آئی ہے، جو قومی سلامتی اور علاقائی معاملات کے بارے ان کی بالغ النظری کی عکاس ہے۔
پاکستان سعودی عرب تعلقات کے حوالے سے کئے گئے سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ’’اس وقت دنیا بھر میں صحافی جمال خشوگی کے قتل کے حوالے سے سعودی عرب پر تنقید کی جا رہی ہے، لیکن اس کے باوجود سعودی عرب کے ساتھ بہترین تعلقات کو ہماری خارجہ پالیسی میں اہم مقام حاصل ہے۔ انہوں نے صحافی کے قتل پر ناقابل بیان افسوس کا اظہار کیا اور سعودی حکومت کے مؤقف کو رد کرتے ہوئے کہا سعودی عرب کو تسلی بخش جواب دینا چاہئے۔ ہمیں امید ہے کہ ان کے پاس عوام کو مطمئن کرنے کیلئے مناسب جواز موجود ہے اور اس قتل میں ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا دینا بھی لازم ہے۔ میرے لئے سعودی شہزادے محمد بن سلمان کی بلائی گئی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کرنا ضروری تھا، کیونکہ میرا ملک قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ دو سو دس ملین آبادی والا ملک اس وقت بدترین قرضوں جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ جب تک ہم آئندہ دو تین ماہ کے دوران دوست ممالک سے قرضہ نہیں لیتے، ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ درآمدات کی ادائیگی کر سکیں۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں اور ضرورت کے وقت ہر مرتبہ سعودی عرب نے ہماری مدد کی ہے۔ ہمارے دو ملین لوگ سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں، جن کی ترسیلات ہمارے لئے بہت اہم ہیں، لہٰذا ہم سعودی عرب سے ساتھ تعلقات کو کمزور کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘
یمن کی جنگ میں ثالثی کردار کے حوالے سے سوال کے جواب میں جیسا کہ انہوں نے چھ ستمبر یوم دفاع پاکستان کے موقع پر اس بات کا عہد کیا تھا کہ ’’پاکستان اب کبھی دوسروں کی جنگ میں شامل نہیں ہوگا‘‘ یمن میں ثالثی کے کردار کی دعوت ایک مثبت قدم ہے۔ انہوں نے کہا: ’’پاکستان یمن کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانے اور سعودی عرب کو اس خونی جنگ سے نکلنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ یمن میں کوئی پاکستانی تربیت کار نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے فوج وہاں پر کسی قسم کی کارروائی میں شامل ہے۔‘‘
جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ ’’میں ہمیشہ سے مسائل کے عسکری حل کا مخالف رہا ہوں، جب میں پہلی دفعہ سعودی عرب گیا تو میں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ کو فوج کہے کہ یہ چند ہفتوں یا مہینوں کی بات ہے کہ تم جنگ جیت جاؤ گے اور آپ جنگ شروع کرتے ہیں تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہوتے ہیں، جنگوں کے نتائج منصوبہ سازوں کی خواہشات کے مطابق نہیں نکلا کرتے، انہوں نے امریکہ کی جانب سے عراق اور افغانستان پر فوجی لشکر کشی کی مثال دیتے ہوئے کہا امریکہ کو توقع تھی کہ انہیں جلد کامیابی ملے گی، لیکن یہ ان کیلئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی ہے اور اب یہی کچھ یمن میں بھی ہو رہا ہے۔‘‘
امریکہ، ایران تعلقات کے حوالے سے انہوں نے امریکہ سے کہا کہ ’’ایران کے خلاف عائد پابندیاں اٹھا لیں تو بہتر ہوگا‘‘ کیونکہ ان کے برے اثرات پاکستان کی معیشت پر بھی پڑ رہے ہیں۔ انہوں نے امریکی صدر پر زور دیا کہ ایران کے خلاف تصادم کی دھمکیاں دینے سے پرہیز کریں اور تجویز پیش کی کہ ان کی حکومت تہران اور ریاض کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے، کیونکہ اسرائیل اور امریکہ کی شہ پر مسلمان ممالک کے درمیان تصادم کو ابھارا جا رہا ہے، جو عالم اسلام کیلئے خاصی پریشانی کا باعث ہے۔ ایران ہمارا پڑوسی ہے اور ہمارے ایک دوسرے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ پہلے ہی مسائل چل رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کے حوالے سے ایران کا کردار مثبت رہا ہے، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس معاہدے سے انحراف کرنے اور ایران کے خلاف پابندیاں لگانے کے فیصلے سے پاکستان بھی متاثر ہو رہا ہے۔ عمران خان کے الفاظ کی بازگشت ہمیں سابق روسی سربراہ گورباچوف کے حالیہ بیان میں سنائی دیتی ہے: ’’دراصل امریکہ کے ان اقدامات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ جنگ عظیم دوم کے بعد عالمی امن و تحفظ کے مقصد سے کئے جانے والے تمام بین الاقوامی معاہدوں کے نظام کو تباہ کرنا چاہتا ہے، امن کو درپیش اس طرح کے واضح خطرے کے مقابلے میں ہم مجبور نہیں ہیں، اس خطرے سے نمٹنے کیلئے ہمیں نہ تو نظریں چرانی ہیں اور نہ ہی ہتھیار ڈالنے ہیں۔‘‘
ایران، پاکستان تعلقات کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ ’’امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ بند پڑا ہے اور تجارت اور بینکنگ کے حوالے سے بھی مشکلات پیدا ہوئی ہیں، امریکہ کی سازشوں کی وجہ سے سعودی عرب اور ایران کے مابین فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی گئی ہے جو پاکستان کیلئے بڑی تشویش کا باعث ہے۔ روایتی طور پر پاکستان کے سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ بہت گہرے تعلقات ہیں اور ہم ان دونوں ممالک کو کمزور ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔‘‘ ایران کو ظالمانہ امریکی پابندیوں سے نجات دلانے کے حوالے سے عمران خان کے ان الفاظ نے ان کے قد و قامت میں کافی اضافہ کیا ہے، جس کے سبب ایک نئی جیو پولیٹیکل حقیقت (Geo-political Reality) کا سامنا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ علاقائی سلامتی کا تحفظ مشترکہ طور پر ہی ممکن ہے۔
افغانستان کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’’امریکہ کو اب احساس ہو گیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا لازم ہے‘‘ اور تجویز دی کہ ملک کے مسائل کا حل مشترکہ حکومت کا قیام ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے انٹرا افغان ڈائیلاگ بہت ضروری ہیں۔ امریکہ کی جانب سے نائن الیون (9/11) حملوں کے حوالے سے انہوں نے کہا ’’جنرل مشرف نے امریکہ کے دباؤ میں آکر ایسی فاش غلطی کی، جو اب تک کسی پاکستانی سربراہ سے سرزد نہیں ہوئی، اس غلطی کے خطرناک نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔‘‘
قبائلیوں کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’جو کچھ ہمارے قبائلی علاقوں میں ہوا، وہ ایک خانہ جنگی کی صورت حال تھی، جہاں ہمارے اپنے لوگ اپنے ہے ملک کے فوجیوں کے مد مقابل تھے، یہ صورت حال ایک بھرپور فوجی آپریشن کا پیش خیمہ بنی، جس میں ان علاقوں کی نصف آبادی کو اپنے گھروں سے بے دخل ہونا پڑا اور چھ ملین آبادی میں سے تقریباً تین ملین لوگوں کو اپنے ملک میں مہاجر بننا پڑا، اس جنگ میں ہمارے اسّی ہزار لوگوں کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے اور یہ سب کچھ امریکہ کے دباؤ کی وجہ سے ہوا، اب ہم کبھی امریکیوں کو اپنے عوام کے خلاف فوج بھیجنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں ان کا کہنا تھا: ’’قبل ازیں میں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کی تجویز دی تھی، جس کی وجہ سے مجھے ’’طالبان خان‘‘ قرار دیا گیا تھا اور اب امریکہ کو حتمی طور پر احساس ہو چکا ہے کہ مسئلہ افغانستان کا حل طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مضمر ہے، امریکہ میں اب شدت سے احساس پایا جاتا ہے کہ طالبان ناقابل شکست ہیں، عمران خان نے اعتراف کیا کہ ان کی سوچ کو امریکہ مخالف سمجھا گیا تھا، لیکن اب جبکہ امریکہ نے خود تسلیم کر لیا ہے کہ مسئلہ افغانستان عسکری طور پر کبھی حل نہیں کیا جا سکتا تو پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں ماضی کی نسبت بہتری آنے کی امید ہے۔‘‘
اس انٹرویو کی بدولت عمران خان نے اپنے قدو قامت کے حوالے سے اپنی شناخت پاکستان کے ایک عملی قائد کی حیثیت سے کرائی ہے، جبکہ ان کی حکومت سیاسی طور پر کمزور ہے، جسے گوناں گوں مسائل کا سامنا ہے۔ عمران ایک بالر (Bowler)ہیں، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی جماعت کیلئے ’’بلا‘‘ (Bat) انتخابی نشان لیا ہے، انہوں نے ایسا کیوں کیا، تعجب ہے، کیونکہ یہ گیند ہوتی ہے، جو وکٹیں اڑاتی ہے اور بلے بازوں کو باؤنسرز کے زور پر ناک آؤٹ کرتی ہے۔ اب وہ کرکٹ اسٹیڈیم سے باہر ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی ٹیم کی کس طرح قیادت کرتے ہیں، جس میں چند ایسے منجھے ہوئے سیاستدان بھی ہیں، جنہوں نے ایک وردی والے قائد کو تسلیم کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ دس مرتبہ بھی وردی میں آئے تو ان کیلئے قابل قبول ہوگا۔
٭٭٭٭٭
Prev Post