قسط نمبر: 71
جنرل سکندر حیات صاحب کو دلبند خام لوہے کے بارے میں جس پارٹی نے بریف کیا تھا اس پر جنرل صاحب کا غیر متزلزل یقین تھا۔ وہ میری کوئی بات نہیں مانے۔ اس موقع پر میری زبان سے چند کلمات ایسے لہجے میں نکل گئے جو نامناسب تھے۔ مگر میرے اس نامناسب رویے پر جنرل صاحب نے ازراہ شرافت و بلند کرداری درگزر سے کام لیا اور خاموشی اختیار کی۔ لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب نے مجھے ایسی نگاہوں سے دیکھا کہ جن سے سخت ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا تھا۔
اس بدمزگی کی وجہ سے اس بحث کو آگے نہ بڑھنے دیا گیا اور اب بات نوکنڈی اسٹیل مل کی لاگت پر آگئی۔ جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ تخمینہ کی گئی کل لاگت یعنی چھتیس ارب روپے بہت کم ہے۔ ان کے اندازے کے مطابق آج کل یہ لاگت کم از کم سو ارب روپے ہو گی۔ اس پر عرض کیا گیا کہ بنیادی پیمانہ تھا کالا باغ اسٹیل مل کی 1967ء کی سالزگٹر انڈسٹری بائو جرمنی کی قابل عمل رپورٹ اور اس میں دی گئیں پلانٹ و مشینری کی قیمتیں۔ میں نے چند اشیا کو نمائندہ بنایا اور ان کی 1967ء اور 2002ء کی قیمتوں کا فرق نکال کر اکثر اشیا کی قیمتوں کو اسی نسبت سے بڑھاکر موجودہ قیمتیں نکال لیں۔ اس طرح 1967ء کی ڈیڑھ ارب روپے کی کل لاگت 2002ء میں چھتیس ارب روپے بن گئی ہے۔ مزید عرض کیا گیا کہ مجھے تسلیم ہے کہ اس فیلڈ میں جنرل صاحب کی معلومات اور اندازے میری معلومات اور اندازوں سے کہیں بہتر اور زیادہ قابل اعتبار ہیں، اس لیے میں اس معاملے میں جنرل صاحب سے کوئی بحث نہیں کروں گا۔ اس کے ساتھ ہی میری پریزنٹیشن اختتام کو پہنچی۔
ابھی میں اسٹیج پر اپنے کاغذات اور پروجیکٹر سلائیڈز سمیٹ رہا تھا کہ جنرل سکندر حیات صاحب اپنی سیٹ سے اٹھ کر میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے ازراہ عنایت فرمایا کہ: ’’بہت زیادہ سوالات کر کے آپ کو پریشان کرنے کے لیے میں آپ سے معذرت خواہ ہوں‘‘۔
اس پر میں نے عرض کیا کہ: ’’زیادہ سوالات پوچھ کر تو آپ نے مجھ حقیر کی عزت افزائی فرمائی ہے، جس کے لیے میں آپ کا ازحد ممنون احسان ہوں، اور معافی تو دراصل میں آپ سے مانگتا ہوں اپنے اس غلط رویے کی، جو مجھ سے جذبات سے مغلوبیت کی بنا پر سرزد ہو گیا۔ برائے مہربانی مجھے معاف فرما دیجئے‘‘۔
اور جنرل سکندر حیات صاحب نے بلند کرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھ حقیر کو معاف فرما دیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب کے آفس میں یہ میری آخری پریزنٹیشن تھی۔ گو اس پریزنٹیشن میں دیگر متعلقہ ماہرین فن بھی مدعو کئے گئے تھے، مگر بنیادی طور پر سارا شو جنرل سکندر حیات صاحب کے لیے ہی کیا گیا تھا کہ جن کے تحفظات کی بنا پر میر ایران کا دورہ بھی وجود میں آیا اور جنہوں نے پریزنٹیشن کے دوران اپنے تحفظات دور ہو جانے کا بھی اظہار فرمایا۔ مگر اس پریزنٹیشن کے بعد نہ میں نے پھر کبھی انہیں ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کے آفس میں دیکھا نہ کبھی ڈاکٹر صاحب سے نوکنڈی اور دیگر منصوبوں پر بات چیت کے دوران ان کا ذکر خیر آیا۔
بہرحال میں یہ باور کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ دلبند خام لوہے پر میرے ساتھ بحث و مباحثے کی بنا پر انہوں نے نوکنڈی اسٹیل مل کے منصوبے سے اپنے ہاتھ کھینچ لیے کہ میں نے اپنے غلط رویے پر ان سے معذرت کرلی تھی اور انہوں نے میری معذرت قبول بھی کر لی تھی۔
مندرجہ بالا صورتحال کے بعد ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب کی ہدایت پر اور ان کے ذاتی خرچ پر بلوچستان گیا اور وہاں جاکر مندرجہ ذیل کام سر انجام دیئے۔
-1 جیولوجیکل سروے آفس پاکستان کے ہیڈ کوارٹر واقع ساریاب روڈ پر بتاریخ 25 جون 2002ء کو تافتان میں ممکنہ نمک کے ذخائر پر اور نوکنڈی اسٹیل مل کے پروجیکٹ پر دو عدد تفصیلی پریزنٹیشنز دیئے۔ ان پریزنٹیشنز میں حکومت بلوچستان کے اکثر متعلقہ افسران، جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے کوئٹہ میں موجود اکثر افسران و اسٹاف ممبران نے اور بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات کے کچھ اساتذہ نے شرکت فرمائی۔ ہر دو منصوبوں میں بہت دلچسپی کا اظہار کیا گیا اور ان منصوبوں کو نہ صرف بلوچستان کے لیے، بلکہ پورے پاکستان کے لیے اہم معاشی منصوبے قرار دیا۔
-2 اس زمانے میں بلوچستان کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ صاحب تھے۔ ان کی شہرت ایک فعال اور ایماندار فوجی افسر کی تھی اور وہ جیولوجیکل سروے آف پاکستان کوئٹہ کے معاملات و پیش رفت میں بھی خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ اس لیے میں نے سوچا کہ ان کو نوکنڈی اسٹیل مل اور تافتان نمک کے منصوبوں کے بارے میں آگاہ کیا جائے تو شاید بات کچھ آگے بڑھ جائے۔ مگر جب میں نے اس سلسلے میں کوشش کی تو معلوم ہوا کہ جنرل صاحب نے اپنے چاروں طرف کئی حصار کھینچ رکھے ہیں، تاکہ کوئی ’حقیر سویلین‘ نہ صرف ان کے قریب نہ پھٹکنے پائے، بلکہ ان سے فون پر بھی بات نہ کر سکے۔ اور نہ صرف یہ کہ بات نہ کر سکے بلکہ ان کو کوئی پیغام بذریعہ فیکس بھی نہ بھیج سکے۔ آخر مجبور ہوکر میں نے انگریزی میں ایک مختصر خط تحریر کیا۔ بازار سے اسے ٹائپ کرایا اور پھر بذریعہ رجسٹری ڈاک جنرل صاحب کو روانہ کر دیا۔ اس خط میں ان سے کچھ وقت مانگا گیا تھا، تاکہ نوکنڈی اسٹیل مل کے منصوبے کے بارے میں کچھ حقائق ان کے گوش گزار کئے جا سکیں۔ یہ خط میں نے 29 جون کو سپرد ڈاک کیا۔ مگر کوئٹہ میں کئی روز کے انتظار کے بعد بھی جنرل صاحب کی طرف سے کسی قسم کا کوئی ردعمل موصول نہ ہوا۔ ’جنرل‘ صاحب کو نواز شریف صاحب کی ’سویلین‘ حکومت میں ایک مرکزی وزارت بھی ملی۔ یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے بعد اپنی ہیئت اور اپنے مزاج کو یکسر تبدیل کیا اور اب وہ بہت سے سویلین وزرا سے زیادہ سویلین وزیر لگتے۔ مخالفین کے روبرو بحث میں ان کا علم، قوت برداشت اور طرز استدلال لائق صد ستائش ہیں۔
-3 دو جولائی 2002ء کو اس حقیر نے سینٹر آف ایکسیلنس ان منرالوجی یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ میں ایک تفصیلی لیکچر دیا۔ لیکچر کا عنوان تھا: ’’نوکنڈی کے مقام پر ایک اسٹیل مل قائم ہونے کے امکانات‘‘۔
بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات کے اساتذہ اور طلبا کے علاوہ دیگر شعبہ جات کے اساتذہ اور طلبا، نیز باہر کے بھی کئی لوگوں نے اس لیکچر میں شرکت کی۔ بہت سے سوالات پوچھے گئے اور آخر میں اس پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا گیا۔
-4 دو جولائی کی شام کو کوئٹہ چھوڑ دیا اور تین جولائی کو علی الصبح تافتان پہنچ گیا اور اسی روز تافتان کے زیر تفتیش (نمک کے ذخائر کے لیے) علاقے کا ایک مرتبہ پھر دورہ کیا، تاکہ اسے زیادہ تفصیل سے چھان پھٹک سکوں اور اپنے نقطہ نظر کے حق میں زیادہ سے زیادہ زمینی حقائق جمع کر سکوں۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post