یہ تَفَاخُرِ مُجرِمَانہ کیوں؟

0

نصیب تو دیکھئے، کم بخت کو بے چارا بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ قتل کے مقدمے میں موت کا قیدی ہے، جو کسی رعایت کا مستحق نہیں، مگر پھر بھی قانون کے رکھوالے قوانین کی روگردانی کرتے ہوئے ہر بار اسے رعایتی پیکیج دے دیتے ہیں اور یہ رعایتی پیکیجز اعلیٰ عدلیہ کے نوٹسز اور اچانک دورے تہس نہس کردیتے ہیں، لیکن مجال ہے جو اس رویئے پر اعلیٰ پولیس حکام کوذرہ برابر شرم آتی ہو۔
بات ہے قتل کے خطرناک اور بااثر مجرم شاہ رخ جتوئی کی، جسے ہفتے کے روز ملیر جیل میں منصف اعلیٰ نے جیل کے دورے کے دوران وی آئی پی سہولیات سے فیض یاب ہوتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا۔ مجرم کی حیثیت سے یوں پکڑے جانے پر قاتل شاہ رخ جتوئی کے چہرے پر ندامت ہونی چاہئے تھی، مگر ایسا ہرگز نہ تھا، منصف اعلیٰ کی طرف سے سرزنش پر جیل سپرنٹنڈنٹ کے چہرے پر تو ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں، مگر مجرم ذرہ برابریشان نہ تھا اور پریشان ہوتا بھی کیوں! اس کی ڈھٹائی بتا رہی تھی کہ پولیس افسران نے ڈیتھ سیل کا قیدی ہوتے ہوئے اسے بی کلاس سہولیات مفت فراہم نہیں کی ہوں گی۔
صد افسوس کہ ہمارے پولیس حکام چھوٹے ہوں یا بڑے، انہوں نے قوانین ہی نہیں اپنا ایمان تک برائے فروخت پر رکھ چھوڑا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو چیف جسٹس کی موجودگی میں شاہ رخ جتوئی کے چہرے پر ہذیانی ہی سہی، تفاخر سے لبریز مسکراہٹ ہرگز نہ ہوتی۔ ہر ذی شعور جانتا ہے وہ کون سی تمکنت ہے جو اسے چیف جسٹس، جیل سپرنٹنڈنٹ اور میڈیا کے سامنے بھی گردن اکڑا کر بات کرنے کا حوصلہ دے رہی تھی، موت کی سزا پانے والے قیدی کا اطمینان اور اس کی جرأت اظہار تو دیکھئے کہ وہ چیف جسٹس کے ہمراہ آئے میڈیا ارکان پر برہم ہی نہیں ہو رہا تھا، بلکہ خود چیف جسٹس سے بھی معترض ہوکر سوال کر رہا تھا کہ اس کی ویڈیو کیوں بنائی جا رہی ہے، اس کا اصرار تھا کہ کیمرے بند کرائے جائیں۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ سپرنٹنڈنٹ عہدے کے حامل ایک پولیس افسر کو اپنی بد اعمالیوں کے سبب ایک قیدی کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا تھا، اب جس پولیس افسر کی کسی مجرم کے سامنے اس طرح سرزنش ہو رہی ہو، بعد میں وہ افسر متعلقہ قیدی کے سامنے کیا منہ لے کر جا سکتا ہے اور بااثر قیدی اس کی کتنی عزت و تکریم کرتا ہوگا؟ اس احوال بے شرمی کے مزید یہاں بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
ایک مجرم کی منصف اعلیٰ کے سامنے مذکورہ بالاجرأت اظہارکا سبب کیا ہے؟ اس بات کو چھیڑا جائے تو کہانی وہی نکلے گی جسے لکھتے لکھتے حافظ جی بے زاری سی محسوس کرنے لگے ہیں، یعنی پولیس کی بداعمالیاں۔ لیکن ممکن نہیں کہ پولیس کی نالائقیوں کو بیان کئے بنا کسی بات کی تکمیل ہوسکے۔ پولیس کی ریشہ دوانیاں اصل حکمرانوں کی اپنی نااہلی سے مربوط ہیں، جو نظام کو شفاف بنانے کے وعدوں پر عوام سے ووٹ لے کر عنان اقتدار حاصل کرتے ہیں اور پھر اقتدارکی غلام گردشوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کے اسی راستے پر گامزن ہو چکی ہے۔ ٹھیک ہے تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے ابھی دو ماہ کا مختصر عرصہ ہی گزرا ہے، مگر ان دو ماہ میں بھی نہ تو عمران خان نے نہ ہی ان کی کابینہ کے کسی ذمہ دار نے پولیس اصلاحات پر کوئی لب کشائی کی ہے، حالاں کہ الیکشن سے قبل جن نعروں سے عمران خان نے عوام کو اپنی جانب راغب کیا، ان میں کرپشن کے خاتمے کے بعد ان کا دوسرا بڑا نعرہ پولیس اصلاحات ہی تھا۔ یہ بجا کہ تحریک انصاف کرپشن کے بڑے مجرموں کی سرکوبی کے لئے ڈٹی ہوئی ہے، مگر کیا کسی حکومتی ذمہ دار نے سنجیدگی سے سوچا کہ چھلنی لگے برتن میں پانی جمع نہیں کیا جاسکتا، یعنی مجرم پکڑ کر عدالتوں کے صبر آزما فیصلوں کے بعد جیلوں میں بھیجتے رہیں، جہاں پولیس ان سے مک مکا کرکے انہیں سہولیات فراہم کرتی رہے۔ بھولے بادشا ہو کیا آپ نواز شریف اور حنیف عباسی کی جیل میں آؤ بھگت کا معاملہ بھول گئے؟ جناب عالی مجرم پکڑنے سے پہلے اس محکمے کو درست کرنا ضروری ہے، جہاں جرم تقویت پارہا ہے، پولیس اصلاحات وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔ حافظ جی کی مت مانئے، بس ذرا اپنے وعدوں، دعوؤں اور منشور پر ہی نظر ثانی کر لیجئے۔ آپ نے لوگوں کو انصاف دلانے اور نظام کو صاف وشفاف بنانے کے وعدے پر ووٹ لئے ہیں، آپ مہنگائی پر کنٹرول سے قاصر ہیں، مگر اداروں میں اصلاحات سے آپ کو کس نے روکا ہے؟ عوامی حلقوں میں بے چینی کی لہر کا سبب صرف مہنگائی ہی نہیں، بلکہ عمران خان کا وہ بیان بھی ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ بیورو کریسی اور پولیس انہیں کام نہیں کرنے دے رہی۔ کسی ملک کے حکمراں سے ایسی مضحکہ خیز بات حافظ جی نے کم ہی سنی ہوگی، خان صاحب اب بیوروکریسی اور پولیس دونوں آپ اور آپ کے وزراء کے ماتحت ہیں، وہ کچھ بھی کریں عوام جواب دہی آپ ہی سے کریں گے۔
ایک انتظامی خرابی یہ بھی ہے کہ پولیس کو اس کی لیاقت سے زیادہ اختیارات تفویض کر دیئے گئے ہیں، جس نے انہیں مادر پدر آزاد کر دیا ہے، جس محکمے میں سزا اور جزا کا عمل نہ ہو، اس کا حال ہماری پولیس جیسا ہی ہوتا ہے۔ شواہد عام ہیں، جہاں لاقانونیت اور اختیارات سے تجاوز کے معاملات سامنے آتے ہیں بد قسمتی سے ان کے پیچھے پولیس کارفرما ملتی ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ معاشرے کا سارا نظام ہی پولیس کے متھے مار دیا گیا ہے، کرائے کا مکان لینے سے جیل میں قید ڈیتھ سیل کے قیدی تک پولیس نے رشوت ستانی کا بازار گرم کر رکھا ہے، جیلوں کے اندر و باہر، ہر جائز و ناجائز کام کے نرخ مقرر کر لئے گئے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پولیس کی بے اعتدالیوں اور ان کے اختیار کے زعم نے شہریوں کو بدظن کرکے رکھ دیا ہے، نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم ایک ایسے مسلم معاشرے کے بے بس شہری ہیں، جہاں دین و ایمان تو دور کی بات، حق و انصاف کا حصول بھی ممکن نظر نہیں آرہا، جب کہ رات دن نعرے کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف لگائے جا رہے ہیں۔ نہ جانے کیوں کسی جج، کسی جنرل اور کسی بھی حکومتی ذمہ دار کو نظام کی خرابی کی اصل جڑ نظر نہیں آتی!
گستاخی معاف! غریب سائلین کا کوئی پرسان حال نہیں، ان کی فریاد افسران بالا تک پہنچنا بہت مشکل جب کہ سکندر جتوئی کی دولت کے بل پر بوتے پر اس کے بیٹے شاہ رخ جتوئی جیسے ڈیتھ سیل کے مجرم کو بی کلاس سہولیات دینا نہایت آسان بنا دیا گیا ہے اور یہ جو شاہ رخ جتوئی کی بی کلاس سہولیات پر منصف اعلیٰ کی باز پرس پر آئی جی جیل خانہ جات نے معاملات سے اپنی لاعلمی کا بھونڈا اظہار کیا ہے، کیا اس کے بعد بھی وہ اپنے عہدے کے اہل رہ جاتے ہیں؟ ایسا ہرگز ممکن نہیں کہ آئی جی جیل خانہ جات اپنے محکمے اور ماتحتوں کی کارگزاریوں سے اتنے لاعلم ہوں۔ ہاں وہ لاعلم ضرور ہیں اپنی اس پکڑ سے، جو کسی بھی دن ان کی آنکھ بند ہوتے ہی ان کے اور میرے رب کی طرف سے ہوگی اور ضرور ہوگی، پھر وہاں نہ تو لاعلمی کا عذر چلے گا، نہ ہی رعایت لفظی کام آئے گی، حساب اتنا ہی کڑا ہوگا جتنا عہدہ بڑا ہے۔ کاش! اختیارات کے زعم میں مبتلا اعلیٰ افسران اس نقطے کو سمجھ سکیں۔ (وما توفیقی الاباللہ)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More