توحید پر حیرت انگیز دلیل

0

پہلاحصہ
1965ء میں ایک امریکی خلائی نورد، جو کامیابی کے ساتھ خلا کا سفر کر کے واپس آگیا اور جس کی کامیابی پر موافق و مخالف سبھی نے اعتماد کیا اور خلا میں جو کچھ اس نے دیکھا اور بیان کیا۔ اس کو قابل اعتماد سمجھا گیا۔ اس کا ایک بیان امریکہ کے مشہور ماہنامہ ریڈرز ڈائجسٹ میں چھپا ہے۔ جس کے بعض اقتباسات آپ سنئے کہ یہ خلائی مسافر اپنی حیرانی کے بعد اسی نتیجے پر پہنچا ہے کہ جو اسلام کا عقیدہ ہے کہ یہ نظام کائنات از خود نہیں چل رہا، بلکہ اس کو چلانے والی کوئی ایسی قدرت وطاقت موجود ہے کہ جس کی حکمت و کمال کی کوئی انتہا نہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ مجھے جو خلائی پروگرام کے لئے منتخب کیا گیا، اس موقعہ پر مجھے ایک کتابچہ دیا گیا، جو خلائی معلومات پر مشتمل تھا۔ اس کتابچہ کے ایک مضمون کے دوحصوں نے مجھے بے حد متاثر کیا تھا۔
قارئین گرامی ان وسیع معلومات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ جان لیا جائے کہ شعاعی یا نوری سال (Light Year) کسے کہتے ہیں۔ روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کی مسافت یعنی فاصلہ یا سفر طے کرتی ہے۔ میلوں کے حساب سے یہ سفر تین لاکھ کلو میٹر بنتا ہے اور اگر روشنی کو ایک سیدھی مسافت پر متواتر ایک سال سفر کرنے دیا جائے تو ایسی صورت میں جتنی مسافت اور سفر طے کرے گی۔ اس کو اصطلاحاً شعاعی یا نوری سال (Light Year) کہتے ہیں اور ایک سال میں روشنی جو فاصلہ یا سفر طے کرتی ہے، وہ پچانوے کھرب کلو میٹر ہے۔
آمدم برسر مطلب۔ اب کتابچہ کے اس حصے کو نقل کیا جاتا ہے جس میں کائنات کی وسعت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ہمارے کہکشائی (یعنی بہت سے چھوٹے چھوٹے ستاروں کی دھاری جو اندھیری رات میں سڑک کی مانند آسمان پر دور تک گئی ہوئی نظر آتی ہے) نظام کا قطر یعنی کنارہ تقریباً ایک لاکھ شعاعی سال کی مسافت یعنی فاصلہ کے مساوی یا برابر ہے اور سورج اس کہکشائی مرکز سے تقریباً تیس ہزار سال کی مسافت پر واقع اور اپنے محور پر دو سو ملین (یعنی بیس کروڑ سال) میں چکر لگاتا ہے۔ اندازہ لگایئے کہ نظام شمسی کے باہر کی کائنات کے لیے کسی بڑے پیمانہ کا تصور کس قدر مشکل اور دشوار ہے۔ ہمارے اس کہکشائی نظام کی کوئی انتہا نہیں، اس لیے کہ اس سے آگے اور پرے، دسیوں لاکھ دوسرے کہکشائی نظام ہیں۔ وہ کائناتی حدود جو بڑی دوربین سے دیکھے جا سکتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق ہم سے تمام اطراف و جوانب میں تقریباً دو ہزار ملین یعنی دو ارب نوری سال کی مسافت پر ہیں (دس لاکھ کا ایک ملین ہوتا ہے) ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کائنات کتنی وسیع و عریض ہے۔ اس کے بعد معلومات کا کچھ اور تذکرہ کر کے لکھتا ہے کہ کیا یہ تمام حقائق اتفاقیہ ہیں؟ یقیناً یہ سب کچھ ایک معین منصوبے کے تحت ہے۔ یہی وہ ایک واحد شے ہے۔ جو خلا میں خدا تعالیٰ کے وجود پر دلالت کرتی ہے اور یہ کہ کوئی طاقت ضرور بالضرور ہے جو ان سب کو مرکز و محور سے وابستہ رکھتی ہے۔ پھر آگے لکھتا ہے کہ ہم مدار میں تقریباً اٹھارہ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اوپر جاتے ہیں یعنی پانچ میل فی سیکنڈ کے حساب سے کافی تیز اور انتہائی بلند ہے، اس کے باوجود خلا میں پہلے سے جو عمل جاری و ساری ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہماری کوششیں انتہائی حقیر ہیں۔
لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ سائنسی اصطلاحات اور پیمانوں میں خدا کی قدرت کی پیمائش قطعاً ناممکن ہے… پھر اس کے آگے خلائی مسافر بہت کچھ لکھنے کے بعد اخیر میں کہتا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ ہم خوب جانتے ہیں اور اسی بنا پر کہتے ہیں کہ اس ساری کائنات میں ایک زبردست رہنما قوت موجود ہے۔ (ماخوذ ماہنامہ البلاغ کراچی بابت ماہ ذی الحجہ 1387ھ بمطابق مارچ 1968ء)
اسی رہنما قوت کو دین محمدؐ نے بتایا ہے کہ گورنر پاور، وہ قوت رب کائنات حق جل شانہ کی ہی ہے۔ اس مندرجہ بالا مضمون کی مناسبت سے صاحب تفسیر معارف القرآن کا مضمون بھی یہاں نقل کر دینا قارئین کرام کے لیے دلچسپ و مفید ہو گا۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More