قسط نمبر: 72
تافتان میں فیلڈ سروے مکمل کرنے کے بعد اور بلوچستان چھوڑنے سے پہلے کوئٹہ میں سیکریٹری شعبہ مائنز و منرلز سے ملاقات کی اور ان کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ نوکنڈی خام لوہے کے ذخائر کا کانکنی کا پٹہ میری کمپنی ’تکنیک مشرق‘ کو گرانٹ کر دیجئے اور یہ کمپنی جو پاکستان کے کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انتہائی تجربہ کار ماہرین ارضیات اور مائننگ انجینئران پر مشتمل ہے اور جس کو ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب کی آشیرواد بھی حاصل ہے، تحریری طور پر یقین دہانی کرائے گی کہ وہ ایک دیئے گئے وقت میں نوکنڈی میں دس لاکھ ٹن سالانہ پیداواری گنجائش رکھنے والی ایک اسٹیل مل لگائے گی۔ انہوں نے فرمایا کہ ان ذخائر کی کان کنی کا پٹہ تو پاکستان اسٹیل مل والوں کے پاس ہے اور وہ ہمیں باقاعدگی کے ساتھ سالانہ ڈیڈرینٹ (پٹے کو بے کار رکھنے کا تاوان) بھی ادا کر رہے ہیں۔ نیز ہمارے پاس ان ذخائر میں دلچسپی رکھنے والی کوئی دوسری پارٹی بھی نہیں ہے۔ اس لیے ہم ان کا پٹہ کیوں منسوخ کریں؟ میں نے عرض کیا کہ یہ مسئلہ اس طرح حل ہو سکتا ہے کہ میری کمپنی ’تکنیک مشرق‘ آپ کے محکمے کو نوکنڈی خام لوہے کے دونوں ذخائر یعنی پاچن کوہ اور چگین ڈک کی مائنگ لیزوں کی علیحدہ علیحدہ درخواستیں تمام لوازمات مکمل کرنے کے بعد جمع کرائے دیتی ہے۔ اس بنیاد پر آپ پاکستان اسٹیل مل کے دونوں پٹے پچھلے سترہ سال سے خام لوہے کے ذخائر پر کوئی ترقیاتی کام نہ کرنے پر اور پٹے کو بیکار پڑا رکھنے پر منسوخ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، ہم ایسا ہی کریں گے۔ بعد ازاں تکنیک مشرق نے وعدہ کی گئی دونوں درخواستیں کوئٹہ میں حکومت بلوچستان کے متعلقہ ادارے میں جمع کرا دیں اور ان کی بنیاد پر اس ادارے نے پاکستان اسٹیل مل کو شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیئے اور بعدازاں ان کے دونوں پٹے منسوخ بھی کر دیئے۔
مگر شومئی قسمت کہ اس محکمے نے پاکستان اسٹیل مل کے پٹے تو منسوخ کر دیئے، لیکن جلد ہی یہ دونوں پٹے پاکستان پیٹرولیم کمپنی کو جاری کر دیئے جو سو فیصد پاکستان کی وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل کا ایک ذیلی ادارہ تھا اور تاحال ہے۔ یہ عمل اس ادارے نے حکومت پاکستان کی مائننگ پالیسی 1995ء کی واضح شقوں کے باوجود کیا کہ حکومت پاکستان یا اس کا کوئی ذیلی ادارہ کسی ایسی منرل ایکٹیوٹی (معدنیات کی تلاش کاری یا کانکنی) میں حصہ نہیں لے گا، جس میں کوئی پرائیویٹ فرم یا کمپنی دلچسپی رکھتی ہو۔ ایک دفعہ پھر میں کوئٹہ گیا اور سیکریٹری شعبہ مائنز و منرلز جناب کاکڑ صاحب سے ملا۔ تو وہ فرمانے لگے کہ ’’آپ کی کمپنی کے مقابلے میں ہمارے پاس ایک سرکاری ادارے کی درخواست آگئی تھی اور اسے تو ہم نے ترجیح دینی ہی تھی‘‘۔ اور تاحال یہ خام لوہے کے دو عدد کانکنی کے پٹے (m
ining leases) ایک سرکاری تیل کی کمپنی کے پاس ہیں، جس کے پاس ان اہم خام لوہے کے ذخائر پر ترقیاتی کام کرنے والا کوئی اسٹاف نہیں ہے اور جس نے ابھی تک ان ذخائر پر صرف اتنا کام کیا ہے کہ کسی کو بھی بھیج کر ذخائر سے اوسط نمونے کے بجائے چن چن کر ہائی گریڈ خام لوہے کے نمونے جمع کئے اور انہیں جرمنی کی کسی لیبارٹری میں مزید افزودگی کے لیے روانہ کر دیا۔ انہوں نے اسے مزید تقریباً 5 فیصد تا 7 فیصد افزودہ کرنے کے بعد ایک مثبت اور بڑی امید افزا رپورٹ روانہ کر دی۔ یہ رپورٹ کراچی میں پی آئی ڈی سی (PIDC) ہائوس میں واقع پاکستان پیٹرولیم کے کمیٹی روم میں منعقد ایک میٹنگ میں زیر بحث آئی۔ یہ میٹنگ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ اور طویرقی اسٹیل مل کراچی کے نمائندوں کے درمیان منعقد ہوئی تھی۔ اس میٹنگ میں یہ طے ہونا تھا کہ آیا جرمنی میں افزودہ کیا ہوا نوکنڈی خام لوہا نمائندہ ہے اور کیا اس گریڈ کا افزودہ کیا ہوا خام لوہا تجارتی پیمانے پر طویرقی اسٹیل مل کراچی کو فراہم کیا جا سکتا ہے؟ اس میٹنگ میں طویرقی اسٹیل ملز کراچی کے نمائندے کے طور پر راقم الحروف بھی حاضر تھا۔ جب پاکستان پیٹرولیم کے لوگوں کو بتایا گیا کہ جیسا خام لوہا آپ نے افزودگی کے ٹیسٹ کے لیے جرمنی روانہ کیا تھا، ایسا خام لوہا تو نوکنڈی میں بس نمونے کے طور پر ہی دیکھنے کو ملتا ہے اور اس قسم کا خام لوہا (lron ore) تو پورے نوکنڈی کے خام لوہے کے ذخیرے میں دس فیصد سے بھی کم مقدار میں پایا جاتا ہے۔ اس پر پیٹرولیم کمپنی والے کج بحثی کرنے لگے کہ ہم نے اوسط نمونہ ہی بھیجا تھا۔ ان کو بتایا گیا کہ نوکنڈی کے اوسط نمونے میں تو 50 فیصد سے بھی کم لوہا ہوتا ہے اور آپ کے نمونوں میں تو 55 فیصد تا 65 فیصد لوہا تھا، جیسا کہ جرمنی سے آمدہ افزودگی کی رپورٹ سے ظاہر ہے۔ لیکن انہوں نے اس حقیقت کو ماننے سے انکار کر دیا اور بضد رہے کہ ان کے نمونے اوسط نمونے تھے۔ اس میٹنگ کے انعقاد کا اصل مقصد یہ تھا کہ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ طویرقی اسٹیل مل کراچی کو افزودہ شدہ خام لوہا باقاعدگی سے سپلائی کرے، بشرطیکہ وہ نوکنڈی کے خام لوہے کو +65 فیصد لوہا (Fe) اور 5 فیصد سلیکا (SiO2) تک افزودہ کر سکے اور یہ کہ اس افزودہ شدہ خام لوہے کی قیمت اسی گریڈ کے درآمد شدہ غیر ملکی خام لوہے سے کم ہو۔ یہ میٹنگ بغیر کسی فیصلے کے ختم ہو گئی۔
قارئین کرام نوکنڈی خام لوہے کے ذخائر کا ’بٹیرا‘ اب بھی پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کے پیر کے نیچے دبا ہوا ہے۔ بہت سے مقامی لوگوں نے اسی رقبے میں سنگ مرمر وغیرہ کے پراسپیکٹنگ لائسنس جاری کرا لیے ہیں اور ان کی آڑ میں خام لوہے کے بالائے زمیں پائے جانے والے اجسام میں ترجیحی کان کنی کر کے اعلیٰ قسم کا خام لوہا کراچی اسٹیل مل وغیرہ کو سپلائی کرتے رہے ہیں اور کم تر درجے والا خام لوہا موقع پر چھوڑ رہے ہیں۔ کچھ ترجیحی بنیاد پر نکالا ہوا اعلیٰ گریڈ کا خام لوہا (iron ore) گاہے گاہے غیر ممالک کو بھی برآمد کیا جاتا رہا ہے اور یہ سب بظاہر بلوچستان کے محکمہ معدنیات کے تعاون سے ہو رہا ہے۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post