خالی ہاتھ:
حضرت عباس بن دہقانؒ فرماتے ہیں کہ حضرت بشر بن حارثؒ کے سوا کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا کہ جو جس طرح دنیا میں آیا ہو اسی طرح اٹھ جائے۔ حضرت بشر بن حارثؒ جس طرح آئے، اسی طرح واپس چلے گئے۔ ان کے مرض الموت میں ایک شخص ان کے پاس آیا اور آپ سے سوال کیا: آپ نے اسی وقت اپنی قمیض اتاری اور اس کو دے دی، پھر ایک شخص آیا اور اس سے کپڑا مانگ لیا، اسی میں وصال فرما گئے۔ (احیاء العلوم)
مناجات:
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت بشر حافیؒ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے عرفہ کے روز ایک ایسے شخص کو دیکھا جو رب تعالیٰ کی محبت کے غلبے کے باعث زاری کر رہا تھا اور بڑے زور سے پکار کر کہہ رہا تھا: پاک ذات ہے وہ اگر ہم اسے سجدہ کریں اور اپنا سر اور آنکھیں کانٹوں اور سوئیوں پر رکھیں تو اس کی نعمتوں کا حق دس میں سے ایک بھی ادا نہ کرسکیں۔ خدایا! ہم نے کتنی ہی خطائیں کیں اور اس وقت تجھے یاد نہ کیا اور تو اے پروردگار! ہمیں پوشیدہ یاد کرتا ہے۔ ہم نے جہالت سے گناہ کیا اور اپنی دانست میں تجھ سے چھپایا اور تو ہمارے ساتھ مہربانی سے پیش آیا اور ہمارے عیبوں پر پردہ ڈالا۔
حضرت بشرحافیؒ فرماتے ہیں کہ پھر وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ جب وہ مجھے دکھائی نہ دیا تو میں نے لوگوں سے پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ خدا کے بڑے برگزیدہ بندے ابو عبید ہیں، جو کہ ستر سال ہوئے انہوں نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھا کر نہیں دیکھا۔ لوگوں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ میں اپنا منہ اپنے محب کی طرف کروں۔ حیرت ہے کہ نیک فرمانبردار ہو کر اطاعت گزاری کرنے کے باوجود عاجزی و انکساری کرے اور نافرمان غرور اور سرکشی سے پیش آئے اور اپنے گناہوں سے شرم نہ کھائے، خدایا! ہمیں اپنے دیدار سے محروم نہ کرنا اور اپنے نیک بندوں کے طفیل ہمیں آخرت میں نفع عطا فرمانا اور ان بزرگوں کے ساتھ ہمارا انجام کرنا۔ (نزہتہ البساتین)
حق تعالیٰ کا خوف:
حضرت بشر بن حارثؒ کے بھانجے جناب عمرو فرماتے ہیں کہ ایک دن میرے ماموں حضرت بشرحافیؒ نے میری والدہ محترمہ سے کہا کہ بہن! کمزوری اور نقاہت کے باعث میری پسلیاں باہر نکل آئی ہوئی ہیں۔ میری والدہ نے کہا کہ بھائی! اگر تم کہو تو میں اپنے پاس سے تمہارے لئے ایک مٹھی میدہ سے حریرہ بنادوں تاکہ تم اس کو پیئو اور اس سے کچھ توانائی تم میں آجائے؟ میرے ماموں نے جواب دیا کہ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے رب تعالیٰ یہ نہ پوچھے کہ تیرے پاس آٹا کہاں سے آیا؟ پھر میں کیا جواب دوں گا۔ یہ سن کر میری والدہ محترمہ رونے لگیں اور وہ خود بھی روئے اور ان کے ساتھ میں بھی رویا۔ میری والدہ نے ان کی جب یہ حالت دیکھی کہ بھوک کی شدت کے باعث سانس میں کمزوری واقع ہوگئی ہے تو ان سے کہا کہ بھائی کیا اچھا ہوتا کہ میں تمہاری ماں سے پیدا نہ ہوئی ہوتی۔ اس لئے کہ تمہاری حالت دیکھ کر میرا جگر پاش پاش ہوا جاتا ہے۔ انہوں نے جواب میں ارشاد فرمایا، اے بہن! میں بھی یہی کہتا ہوں۔ میری والدہ رات دن ان کے لئے رویا کرتی تھی۔ (احیاء العلوم)(جاری ہے)
٭٭٭٭٭