سرفروش

0

عباس ثاقب
اپنے اپنے بدترین اندیشوں کی تصدیق کے لیے امر دیپ نے کہا۔ ’’صاف صاف بتاؤ، تم لوگ چاہتے کیا ہو؟‘‘۔
اس پر شاٹ گن بردار بدمعاش نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ ’’ہمیں پتا ہے تم ہمارا مطلب سمجھ گئے ہو، پھر بھی ہماری زبان سے سننا چاہتے ہو تو بتا دیتے ہیں۔ ہم اس بچے کو اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں۔ تم پورا تیس ہزار روپیہ ساتھ لے کر کل رات گردیال پور کے جنگل پہنچ جاؤ‘‘۔
یہ سن کر امر دیپ غصے سے چیخ پڑا۔ ’’بکواس بند کر کتے کے بچے۔ جان سے مار دوں گا۔ تمہیں ایسا سوچنے کی جرأت بھی کیسے ہوئی؟‘‘۔
میں نے بھی خونی لہجے میں کہا۔ ’’ان بندوقوں پر اکڑنے کی غلطی نہ کرنا۔ اگر تم نے بچے کی طرف ٹیڑھی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی تو آنکھیں نکال لوں گا۔ تم نے سمجھا کیا ہے؟‘‘۔
شاٹ گن والے نے شاید پہلی مرتبہ توجہ سے مجھے دیکھا۔ ’’واہ جی، ہمیں تو پتا ہی نہ تھا کہ اتنا بڑا سورما یہاں بیٹھا ہے، جسے بندوق سے ڈر نہیں لگتا‘‘۔
میں نے ٹھوس لہجے میں کہا۔ ’’تم بچے کی طرف ہاتھ بڑھا کر دیکھو، خود پتا لگ جائے گا۔ اگر تمہارا ہاتھ توڑ کر تمہارے دوسرے ہاتھ میں نہ پکڑا دوں تو بہادر سنگھ نام نہیں‘‘۔
اسے میرے لہجے میں سچائی محسوس ہوئی ہوگی، تبھی اس نے چونک کر مجھے دیکھا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’تمہیں یہ تو پتا ہوگا کہ سردار اپنی عزت اور غیرت کی خاطر صدیوں سے جان دیتے اور لیتے آئے ہیں۔ میرے جیتے جی تم اس بچے کو اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتے۔ کوشش کرکے دیکھ لو۔ اگر کامیاب ہوگئے تو ہو سکتاہے تمہیں دولت مل جائے اور ہو سکتا ہے نہ مل سکے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم مال تو وصول کرلو لیکن بعد میں پکڑے جاؤ…۔ لیکن اگر تم ناکام ہوگئے، تو میں تم لوگوں کو ایسی درد ناک موت ماروں گا کہ لوگ تمہاری لاشیں دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگائیں گے‘‘۔
وہ سنتے گئے، میں بولتا گیا۔ میری زبان سے نکلنے والا ہر لفظ گویا ان پر بجلی گرارہا تھا۔ وہ کچھ دیر کے لیے سن ہوکر رہ گئے۔
پھر شاٹ گن والے کے دماغ نے میری گفتگو کے سحر سے نکلنے کی کوشش کی۔ ’’میری بات غور سے سنو جوان‘‘۔ مجھے اس کے لہجے میں سنسناہٹ سی محسوس ہوئی۔ ’’تم کتنے بھی تیس مار خان ہو، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں تم سے زور آزمائی کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ میری بندوق کی دونوں نالوں میں بارہ بور کے کارتوس ہیں۔ تم نے ذرا سی تن پھن دکھائی تو اس بچے کے نازک جسم کے چیتھڑے اڑ جائیں گے۔ اب یہ فیصلہ تمہیں کرنا ہے کہ دولت بچانا چاہتے ہو یا اس بچے کی زندگی‘‘۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، امر دیپ بول پڑا۔ ’’تمہاری مانگی ہوئی رقم تم لوگوں کو مل جائے گی۔ لیکن بچے کے ساتھ تمہیں مجھے بھی یرغمال بناکر ساتھ لے جانا پڑے گا۔ میں اسے تنہا تمہارے ساتھ نہیں بھیج سکتا‘‘۔
دونوں لٹیروں نے مشورہ طلب نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر ایک ساتھ ایک ہی نتیجے پر پہنچ گئے۔ ’’ٹھیک ہے، لیکن پھر مال لے جنگل کون آئے گا؟‘‘۔
میں نے سینے پر ہاتھ مار کر کہا۔ ’’فکر نہ کرو، میں خود پہنچوں گا وہاں‘‘۔
شاٹ گن والے نے مطمئن لہجے میں کہا۔ ’’ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ میرا خیال ہے تمہیں یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ پولیس یا لاؤ لشکر ساتھ لے کر آئے تو ان دونوں کی لاشیں ہی ملیں گی‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ڈرتے کیوں ہو؟ میں اکیلا ہی آؤں گا… اور جتنا مال مانگا ہے لے کر آؤں گا۔ لیکن مجھے اپنے گاؤں جانے اور رقم کا بندوبست کر کے جنگل آنے کے لیے یہ جیپ ساتھ لے جانی پڑے گی‘‘۔
میری بات سن کر پستول بردار لٹیرا بے ساختہ ہنس پڑا اور طنزیہ لہجے میں بولا۔ ’’تم کیا بندوبست کرو گے؟ بڈھا مرگیا کیا؟ اس کی تجوری بھری پڑی ہے نوٹوں کی گڈیوں اور سونے چاندی سے، وہ دولت کس کام آئے گی‘‘۔
اس کی بات سن کر میں چونکا۔ مجھے پہلی بار ادراک ہوا کہ ڈاکے کی یہ واردات کتنی گہری منصوبہ سازی کے بعد کی گئی ہے۔ یہ لٹیرے غالباً امر دیپ اور اس کے خاندان کے بارے میں سب کچھ جانتے تھے۔
ادھر امر دیپ نے غصے سے تلملاتے ہوئے کہا۔ ’’زبان سنبھال کر بات کر بدتمیز آدمی۔ ایسا نہ ہو کہ میں سب کچھ بھول کر تمہارا گلا گھونٹ دوں‘‘۔
شاٹ گن والے بدمعاش نے بھی اپنے ساتھی کو ڈپٹ کر زبان بند کرنے کی ہدایت کی۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’ٹھیک ہے، تم یہ جیپ لے جا سکتے ہو، لیکن کل رات تک ہر صورت میں، مال سمیت تنہا گردیال پور کے جنگل پہنچ جانا‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’مجھے کس راستے سے جنگل میں داخل ہونا ہوگا؟ اور یہ بھی بتادو کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ مال وصول کرنے کے بعد واقعی ان دونوں کو آزاد کر دیا جائے گا‘‘۔
شاٹ گن والے نے گھور کر مجھے دیکھا اور تیکھے لہجے میں کہا۔ ’’ہمیں صرف مال سے مطلب ہے۔ وہ ہاتھ لگنے کے بعد ہم انہیں رکھ کر کیا کریں گے؟ اور ہاں، تمہیں شاید پتا نہیں ہے کہ گردیال پور جنگل میں ایک ہی پکا راستہ اندر تک آتا ہے، جو ڈاک گھر کے پاس گزرتا ہے۔ تم بھی اسی راستے سے آؤ گے، تنہا اور خالی ہاتھ!‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے، میں ٹھیک شام چھ بجے ڈاک بنگلے کے پاس سے گزر کر جنگل میں داخل ہو جاؤں گا، لیکن تم لوگ رقم وصول کرنے اور ان دونوں کو رہا کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگاؤ گے۔ ہمیں رات کے اندھیرے میں جنگل سے واپسی کا سفر طے کرنا ہوگا‘‘۔
میری بات سن کر شاٹ گن والا ہنسا۔ ’’نوٹوں کی گنتی پوری کروانا اور نکل جانا، آگے تمہاری قسمت!‘‘۔
اس کی بات مکمل ہونے پر میں نے امر دیپ کی طرف دیکھا، جو ہماری باتیں سننے کے ساتھ ساتھ کچھ سوچ بھی رہا تھا۔ اس نے سہمے ہوئے مانو کی پشت سہلاتے ہوئے کہا۔ ’’چلو بیٹا، تمہیں گھوڑے کی سیر کراتا ہوں‘‘۔
لیکن اس ذہین بچے نے صورتِ حال کی سنگینی بخوبی بھانپ لی تھی۔ اس نے اپنا خوف چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’چلیں تایا جی، میری فکر نہ کریں، مجھے ڈر نہیں لگ رہا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More