اک سفر اور سہی…

0

مورخہ دس اکتوبر بروز بدھ ’’امت‘‘ میں میرا کالم بعنوان ’’ایم نائن موٹر وے سے کورنگی تک سفر‘‘ شائع ہوا تھا، جس میں، میں نے قارئین کو اپنے بچپن کے دوست سابق وارنٹ آفیسر خالد رضوان خان کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ اور میں آج کل ایک پنشن کیس پر کام کر رہے ہیں۔ خالد کو میں ’’پنشن اسپیشلسٹ‘‘ کہتا ہوں، اس ضمن میں ہمیں ایم نائن موٹر وے براستہ ملیر کینٹ طویل مسافت طے کر کے کورنگی جی پی او اور کورنگی کے متعدد بینکوں تک سفر کرنا پڑا۔ جی پی او کے پوسٹ ماسٹر جنرل جناب شہاب الدین ایک لائق، ہمدرد اور پرخلوص شخص ہیں، انہوں نے چند منٹوں میں تمام کام مکمل کرا دیا۔ اس کے برعکس الائیڈ، حبیب، یونائیٹڈ اور عسکری بینک کی شاخوں کے نااہل اور انتہائی کھردرے اسٹاف نے ہمیں کئی گھنٹوں تک خوار کیا۔
جب ’’امت‘‘ میں مذکورہ کالم شائع ہوا تو پاک فضائیہ کے بے شمار اہلکاروں اور اعلیٰ افسران نے خالد رضوان خان سے رابطہ کیا اور اس کی ان رضاکارانہ خدمات کی حوصلہ افزائی میں کلمات تحسین ادا کئے، جو وہ بزرگ شہریوں کی پنشن کی تحصیل کے لیے سر انجام دے رہا ہے۔ ساتھ ہی پاک فضائیہ کے شاہینوں نے آکراس دی کانٹی نینٹ روزنامہ امت کی ان کاوشوں کو سراہا، جو وہ تواتر سے ایم ایم عالم روڈ کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے کئی ماہ سے کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ ایم ایم عالم روڈ 1965ء کے جہاد ستمبر کے ہیرو ایئرکموڈور ایم ایم عالم مرحوم سے منسوب ہے۔ ایم ایم عالم ہمارے قومی ہیرو اور عالمی ریکارڈ ہولڈر ہیں۔
کے ایم سی نے سپر ہائی وے سے نیشنل ہائی وے کو باہم ملانے کے لیے شمالاً جنوباً ایک لنک روڈ بنا تو دیا ہے۔ مگر یہ سڑک ہمارے قومی ہیرو کے عظیم کارنامے کی یاد کے شایان شان نہیں ہے۔ کے ایم سی کے اعلیٰ حکام سے گزارش ہے کہ اس روڈ کے انٹری پوائنٹ پر ایک خوب صورت یادگاری گارڈن بنایا جائے۔ ایم ایم عالم روڈ پر اسٹریٹ لائٹس نصب کی جائیں۔ اس روڈ پر دائیں اور بائیں نامکمل برساتی نالے اور واک ویز کی تعمیرات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ ایم ایم عالم روڈ کی باقاعدہ صفائی ستھرائی کرائی جائے۔ نیز اس اہم سڑک پر پھولوں کی نرسریوں کی آڑ میں تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے۔
ایم نائن موٹروے سے شارع فیصل کے آخری سرے پر قائم پنشن کے دفتر تک اک سفر اور کرنا پڑا۔ آج میں اسی سفر کی مختصر روداد سنائوں گا۔ خالد رضوان خان نے ہمیں ہدایت کی تھی کہ ٹھیک دس بجے متعلقہ آفس پر کرنل صاحب کے سامنے حاضر ہو جائیں… طویل فاصلہ، ٹریفک سگنلز کے اشارات کی پابندی اور پیٹرول اور سی این جی کی بھروائی میں سولہ منٹ اوپر ہوگئے۔ خالد رضوان خان نے خالص فوجی انداز کی انگریزی جھاڑی اور اس تاخیر پر ہماری کلاس لی۔ فوج کی نوکری میں وقت کی اہمیت اور پابندی روز اول ہی سے سکھائی جاتی ہے، جو تادیر ہر جوان اور آفیسر کے ساتھ رہتی ہے۔
خالد رضوان خان کی مدد سے اس آفس میں تمام کام تیزی سے نمٹا دیئے گئے۔ سویلین اسٹاف اور کرنل صاحب نے نہایت شفقت اور نرمی کا برتائو کیا، میں پنشن کے حوالے سے پہلے اور دوسرے سفر کا تقابل کر کے حیران ہوتا رہا۔ دوسرے سفر میں میرا فوکس مکمل طور پر شارع فیصل پر رہا۔ اس کالم میں، میں اپنے مشاہدات اور تاثرات رقم کروں گا اور شارع فیصل کی بابت سندھ کی وزارت بلدیات، کے ایم سی اور کنٹونمنٹ بورڈ کے اعلیٰ افسران سے درخواست کروں گا کہ وہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی وی وی آئی پی روڈ کی طرف توجہ فرمائیں اور اسے عالمی سطح کا پرکشش روڈ بنائیں۔
شارع فیصل پر سفر کے دوران آپ محسوس کرتے ہیں کہ اس کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں میں بھاری مشاہرہ پر فائز افسران بالا میں جمالیاتی حسن، کام میں حسن اور نظافت نام کی کوئی شے نہیں پائی جاتی۔ تمام تر شارع پر رنگ و روغن اور تزئین و آرائش میں غفلت شعاری اور عدم دلچسپی نے اس اہم سڑک کو اجاڑ دیا ہے۔ فلائی اوورز کے نیچے ملبہ اور گندگی انتہائی برا تاثر چھوڑتی ہے۔ شجرکاری پر بھی کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ اس سڑک کی بدنمائی میں اس وقت شدید اضافہ ہو جاتا ہے، جب اسٹریٹ لائٹس کے پولز پر طرح طرح کے تار اور کیبلز کے گچھے لٹکتے دکھائی دیتے ہیں۔
شارع فیصل کے ایک سرے سے دوسرے کنارے تک واک ویز گندے اور خستہ سامان ہیں، ان کی حالت دیکھ کر سخت افسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح تمام تر سڑک پر ٹریفک کی روانی کی نشاندہی کرنے والی پیلی پٹیاں بھی بے رنگ ہو چکی ہیں۔ سڑک کے کناروں پر چکنی مٹی جم چکی ہے، جس کی وجہ سے موٹر سائیکل سواروں کو حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وی وی آئی پی روڈ پر نکاسی آب کا نظام ناکارہ ہو چکا ہے اور برساتی نالوں میں کچرا اور تعمیراتی ملبہ پھنسا ہوا ہے۔ ناتھا خان گوٹھ کا برج بھی متعلقہ اداروں کے لیے شرمندگی کا سبب بنتا ہے، اس کا رنگ و روغن اڑ چکا ہے اور یہاں گندگی کا راج ہے۔
شارع فیصل سے گزرتے ہوئے اس وقت سخت افسوس ہوتا ہے جب ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن کے نزدیک شہید منور سہروردی انڈر پاس کی حالت زار پر نظر پڑتی ہے۔ ’’امت‘‘ میں مورخہ 02-08-17 کو اس انڈر پاس کے بارے میں میرا ایک کالم شائع ہوا تھا، جس میں اس کی تعمیر پر اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا۔ تاہم حکومت سندھ کی ناقص کارکردگی اور غفلت شعاری کے باعث ایک شہید کارکن سے منسوب اس انڈر پاس کی حالت بہت بری ہو چکی ہے۔ شہید کارکن کے نام کا پینا فلیکس پھٹ گیا ہے اور یہاں صفائی کی صورت حال بھی دگرگوں ہو چکی ہے۔ یاد رکھئے گا! زندہ قومیں اپنے شہدا سے منسوب منصوبوں کی دیکھ بھال اور خوب صورتی کا بھی پورے خلوص اور گرم جوشی کے ساتھ دھیان کرتی ہیں۔
واپسی کے سفر میں، میں نے خصوصی طور پر موٹروے کے آر پار زیر تعمیر فلائی اوورز کے تعمیراتی کام کی رفتار پر نظر ڈالی۔ یہ دیکھ کر سخت افسوس ہوا کہ ان پلوں کی جلد تکمیل کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ میں ایک مرتبہ پھر عرض کررہا ہوں کہ ان فلائی اوورز کے مکمل ہونے سے لاکھوں محنت کشوں اور محب وطن پاکستانیوں کو بے تحاشا نفع ہو گا۔ اسی طرح سپرہائی وے کو ایم نائن اسمارٹ موٹروے میں تبدیل کرنے کے لیے اس کے دونوں طرف شرقاً غرباً سروس روڈز کی تعمیر کے منصوبے بھی چیونٹی کی رفتار سے زیر تکمیل ہیں۔ لازمی ہے کہ ان منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کر کے یہاں مزید پیٹرول پمپس اور سی این جی اسٹیشنز قائم کئے جائیں، یہ علاقہ سیاحت کے لیے ایک مرکز کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ متعلقہ حکام سے گزارش ہے کہ ایم نائن موٹروے پر جاری تمام تعمیراتی پراجیکٹس ہنگامی بنیادوں پر مکمل کر لیے جائیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ پنشن کیس میں آخری کامیابی تک خالد رضوان خان اور میرے لیے دعائے خیر فرمایئے… شکریہ۔٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More