مرزا عبدالقدوس
سینئر وکلا اور قانونی ماہرین کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے میں ایسی خامیاں موجود ہیں کہ اگر نظر ثانی درخواست میں ان کو اٹھایا جائے تو قانونی طریقے سے فیصلہ بدلا بھی جا سکتا ہے۔ فیصلے میں آسیہ کی جانب سے توہین رسالت کے جرم کو کسی ایک جگہ بھی نہیں جھٹلایا گیا، بلکہ خود عدالت نے اسے ٹیکنیکل بنیادوں پر فیصلہ قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل محمد احسن الدین ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کیخلاف نظرثانی کی اپیل کی جائے تو اس کیلئے اہم قانونی نکات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’لوگوں کے جذبات کی مجھے بھی قدر ہے اور ہمیں بھی نبی کریم ﷺ سے اتنی ہی عقیدت ہے، جتنی ایک مسلمان کو ہونا لازمی ہے اور اس کے بنیادی عقائد کا تقاضا ہے۔ لیکن قانونی راستہ اختیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ نظر ثانی کی اپیل میں بعض ایسے نکات اٹھائے جا سکتے ہیں جو اس فیصلے کو تبدیل کرانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ واقعہ کے پانچ دن بعد ایف آئی آر کے اندراج اور اس طرح کے دیگر ٹیکنیکل ایشوز کا موثر جواب دے کر نظرثانی اپیل دائر کی جائے تو یہ موجودہ حالات میں بہترین صورت ہوگی۔
ممتاز قانون دان وجیہ اللہ خان ایڈووکیٹ کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’’فیصلہ عالمی استعمار کے دباؤ پر دیا گیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں خود تسلیم کیا ہے کہ اس کیس میں ملزمہ کے خلاف ٹیکنیکل بنیادوں پر نرمی برتی گئی ہے۔ یہی اس کیس میں نظرثانی درخواست کا سب سے اہم نکتہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ملعونہ آسیہ مسیح کی جانب سے توہین رسالت کے بارے میں کسی بھی گواہ کے بیان میں تضاد نہیں ہے۔ سب نے اُس کے الفاظ دہرائے ہیں، جو بدبخت نے ادا کئے تھے۔ البتہ اس موقع پر کتنے لوگ جرگہ میں موجود تھے، اس میں تضاد کو بنیاد بنا کر عدالت نے اسے بری کرا دیا۔ جسٹس کھوسہ نے اپنے فیصلے میں گواہان اور ملزمہ کے درمیان لڑائی جھگڑے یا فساد کا ذکر کیا، لیکن یہ نہیں لکھا کہ یہ جھگڑا کیوں اور کب ہوا تھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ بھی فرضی کہانی ہے، جو انہیں سنائی گئی، تاکہ باہمی چپقلش کا رنگ دیا جا سکے۔ دوسری جانب ملعونہ نے جرگے کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ اس اعتراف کو فیصلے میں دباؤ پر اقرار کرنا قرار دیا گیا ہے۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ دباؤ میں آکر مجرم، جرم سے انکار کرتا ہے یا اقرار کرتا ہے، یہ عجیب منطق ہے جو فیصلے میں دی گئی ہے۔ جس شخص پر الزام ہو تو وہ لوگوں کے سامنے آکر صحت جرم سے انکار کرتا ہے تاکہ سزا نہ ملے۔ ہماری عدالت نے اس کا بالکل الٹ مطلب نکالا ہے، تاکہ مجرمہ کو ریلیف دیا جا سکے‘‘۔
سینئر قانون دان حافظ مظہر جاوید نے اس فیصلے سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا کہ ملعونہ آسیہ کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے تاکہ فیصلے کے فوری بعد وہ بیرون ملک فرار نہ ہوجائے۔ لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ آج (جمعہ کو) وہ سپریم کورٹ میں ملعونہ کا نام ای سی ایل میں شامل کرانے کے علاوہ اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل بھی دائر کریں گے، جو ان کے بقول اس کیس میں ہر عاشق رسول دائر کرسکتا ہے۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی استعمار کو خوش کرنے کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا اور عدالت نے فیصلہ دیتے وقت توہین کے واقعے کو نہیں، بلکہ اس کے بعد کے دائیں بائیں کے واقعات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ دیا۔ پورے فیصلے میں کہیں بھی آسیہ کی جانب سے توہین رسالت کے جرم کو نہیں جھٹلایا گیا، جو کسی صورت بھی قانونی فیصلہ نہیں کہلا سکتا۔ جبکہ خود عدالت نے بھی اسے ٹیکنیکل بنیادوں پر فیصلہ قرار دیا ہے۔ اتنے اہم کیس کو جس سے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات وابستہ ہوں، اس میں محض ٹیکنیکل بنیاد پر مجرمہ کو بری کر دینا اس عدالت کی بہادری اور جرأت ہی کہا جائے گا۔ حافظ مظہر جاوید نے کہا کہ گواہان کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں۔ جرگہ کتنے افراد پر مشتمل تھا، ہر گواہ نے اپنے اندازے سے تعداد بتائی، جس کے تضاد کو فیصلے کی ایک بنیاد بنایا گیا ہے۔ اسی طرح عدالت نے مقدمے کے پانچ دن بعد اندراج پر شک کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اس تاخیر کی ذمہ دار پولیس ہے، جس نے ابتدا میں مقدمہ درج کرنے کا انکا کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے حقائق کی بنیاد پر نہیں، بلکہ فنی بنیادوں پر اتنے اہم کیس کا فیصلہ دیا، جو استعمار کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔ اس سے قوم کا عدلیہ پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اگر ملک میں حالات خراب ہوں گے یا ڈیم فنڈ میں کمی ہوگی تو اس کے ذمہ دار یہ فیصلہ کرنے والے ہوں گے۔ حافظ مظہر جاوید ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’ایک مسلمان کی حیثیت سے میں آج جمعہ کو سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کررہا ہوں، جس میں ان تمام نکات کا تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کی ہے، جو عدالت نے اٹھائے ہیں اور ان کی بنیاد پر فیصلہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک دوسری درخواست میں ملعونہ آسیہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لئے بھی عدالت سے درخواست کی جائے گی‘‘۔
Next Post