علی کا پورا نام غلام علی سولنگی ہے۔ اس سے پہلے میری اس سے پاکستان میں کوئی شناسائی نہیں تھی اور نہ کوئی ملاقات ہوئی تھی۔ سات آٹھ برس قبل میں ملائیشیا گیا تھا تو سندھ کے مشہور ادیب سائیں جمال ابڑو صاحب کے بیٹے اطہر ابڑو کے گھر ڈنر پر علی سے ملاقات ہوئی تھی۔ اطہر ان دنوں میں کوالالمپور کے پاکستانی سفارت خانے میں کمرشل سیکریٹری تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ سندھ کے کچھ گوٹھوں سے تعلق رکھنے والے طالب علم، پروفیسر، ڈاکٹر اور بزنس مین مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ملائیشیا کے متعلق لکھی ہوئی میری کتابوں کا مطالعہ کیا تھا، جو میں نے 1980ء اور 1990ء کے دوران ملائیشیا میں رہائش کے دنوں میں تحریر کی تھیں۔ ڈنر میں آنے والے پاکستانی مہمانوں میں علی بھی شامل تھا۔
ہالا کے پروفیسر ڈاکٹر لچھمن تارا چند نے بتایا کہ علی کا کوالالمپور کی کلانگ لاما سڑک پر ایک سائبر کیفے ہے۔
’’ہے نہیں، تھا۔‘‘ علی نے گویا درستگی کرتے ہوئے کہا۔ ’’اس کے ذریعے تین سال تک میں نے خوب کمایا لیکن…‘‘ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ کر گہری سانس لی۔
’’لیکن کیا…؟ پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا تو حاضرین نے قہقہہ لگایا۔ وہاں مرحوم ڈاہر صاحب بھی موجود تھے جو کوالالمپور کے کچھ گھروں میں جاکر بچوں کو قرآن شریف پڑھاتے تھے۔ انہوں نے کہا:
’’جس علاقے کلانگ لاما میں علی نے سائبر کیفے کھولا تھا وہاں تامل (جنوبی ہندوستان کے انڈین) کی اکثریت ہے۔‘‘
’’جی ہاں، آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘‘ میں نے تائید کرتے ہوئے کہا۔ ’’اب شاید تعلیم سے ان میں کچھ بہتری آئی ہو، جبکہ ماضی میں ٹھرا پی کر جھگڑا کرنا اور جوا میں ہارنے کے بعد دنگا کرنا ان کا روز کا معمول تھا۔ اخبار میں روزانہ کلانگ لاما میں ہونے والے کسی نہ کسی جرم کی خبر ضرور شائع ہوتی تھی۔
’’بس جناب! یوں سمجھئے کہ علی کی قسمت پھوٹی… ایک رات ان بدبختوں نے علی کے کیفے میں جھگڑا کر لیا، جو بعد میں شدت اختیار کر گیا۔ پولیس نے پکڑ دھکڑ کی۔ اس چکر میں علی کو اپنا کیفے بند کرنا پڑا۔‘‘ ڈاہر صاحب نے بتایا۔
کھانے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ملائیشیا میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا نے پوچھا کہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انہیں اس ملک میں ملازمت مل سکتی ہے یا نہیں؟
’’اگر آپ لوگ کسی ایسے سبجیکٹ میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں جس میں ان کے لوگ نہیں ہیں تو پھر یہ خود آپ لوگوں کی منت کریں گے کہ یہیں رہ جائیں۔ دوسری صورت میں آپ کا یہاں رہنے کا شوق شاید پورا نہ ہو سکے۔‘‘
ہمارے شہر ہالا سے تعلق رکھنے والے نوجوان ڈاکٹر شکیل میمن دل کے کسی خاص آپریشن میں مہارت حاصل کررہے تھے۔ میں نے ان سے کہا تھا: ’’آپ بے شک ابھی سے یہاں اپنے لیے رہائش کا انتظام کر لیں۔‘‘
لطف کی بات یہ کہ ڈاکٹر شکیل آج کل واقعی کوالالمپور کے دل کے اسپتال کے ٹاپ کے سرجن ہیں۔ جس اسپتال میں وہ خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ دنیا کے پانچ بڑے اسپتالوں میں سے ایک ہے۔ ڈاکٹر شکیل، مہران یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر عبد الرحمان میمن کے بھتیجے ہیں۔
بہرحال دیگر موضوعات پر بھی گفتگو ہوتی رہی۔ کھانے کے بعد یکے دیگرے تمام مہمان رخصت ہو گئے اور آخر میں صرف ڈاہر صاحب اور علی میرے ساتھ رہ گئے۔ علی میرے قریب آکر بولا:
’’سائیں! کوئی مشورہ دیجئے کہ اب میں کیا کروں؟‘‘
’’تمہاری تعلیم کیا ہے؟‘‘ میں نے علی سے پوچھا۔
’’بی اے کیا ہے، وہ بھی لٹریچر میں۔‘‘ اس نے بتایا۔ اسے خود بھی احساس تھا کہ جہاں پی ایچ ڈی کرنے والوں کو آسانی سے ملازمت نہیں ملتی، وہاں بی اے والے کے نصیب کہاں جاگ سکتے ہیں، لیکن مجھے ایسا لگا جیسے علی مذاق کررہا ہے۔
’’لیکن علی!‘‘ میں نے کہا۔ ’’تم انگریزی تو بہت اچھی بولتے ہو۔‘‘
’’میں تو ملئی زبان بھی خاصا بہتر بول لیتا ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’یہاں چھ، سات سال رہنے سے میں انگریزی اور ملئی زبانیں بہت اچھی بولنے لگا ہوں۔‘‘
میں علی کی طرف دیکھنے لگا۔ چھوٹی سی داڑھی اور سوٹ بوشرٹ میں وہ بے حد اسمارٹ لگ رہا تھا۔ میں اسے کیا مشورہ دے سکتا تھا۔ کچھ دیر تک ہم دونوں خاموش رہے۔ اس کے بعد علی نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا کہ اسے کیا کرنا چاہئے؟
’’تم شادی شدہ ہو؟‘‘ میں اس سے یہ سوال کر کے کچھ پریشان سا ہو گیا۔ وہ تیس برس کے لگ بھگ معلوم ہوتا تھا اور ہم سندھی لوگ، خاص طور پر دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کم عمری ہی میں شادی کر لیتے ہیں، روزگار اور گھر گھاٹ کے بارے میں بھی بعد میں سوچتے ہیں۔ سو علی سے یہ سوال کرنا مناسب نہ تھا، لیکن علی کے جواب نے مجھے حیران کر دیا۔
’’نہیں، فی الحال بیچلر ہوں۔‘‘
بے اختیار میرا قہقہہ نکل گیا۔ ’’اس صورت میں تم بیچلر نہیں، بلکہ ماسٹرس سے بھی اعلیٰ ڈگری رکھتے ہو۔‘‘ میں نے اپنے قہقہے کے دوران اس سے کہا۔
میری بات وہ بھی سمجھ گیا اور ڈاہر صاحب بھی ہنستے ہوئے بولے: ’’یار! میں بھی علی کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ خوبرو نوجوان ہو، سات سال سے یہاں رہ رہے ہو۔ یہیں کی کسی لڑکی سے شادی کر لو۔‘‘
’’سائیں! میں نے بھی یہی سوچا ہے…‘‘ علی نے قدرے شرماتے ہوئے کہا۔ پھر لمحہ بھر کی خاموشی کے بعد بولا: ’’ایک ملئی لڑکی مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے۔‘‘
’’صرف وہ شادی کرنا چاہتی ہے یا تمہارا بھی ارادہ ہے؟ ایسا نہ ہو کہ اس بے چاری کو دربدر کر دو۔‘‘ میں نے کہا۔ مجھے سیکنڈ ورلڈ وار کے بعد یہاں رہائش اختیار کرنے والے برصغیر کے مسلمان، خاص طور پر پنجاب اور سرحد سے تعلق رکھنے والے انگریز فوج کے سپاہی یاد آگئے، جنہوں نے یہاں کی ملئی عورتوں سے شادی کر لی تھی، ان میں سے کچھ لوگ اپنے وطن گئے تو پھر لوٹ کر نہ آئے۔ جو لوگ واپس آئے، وہ خاندان کی کسی لڑکی سے شادی کر کے اسے اپنے ساتھ لے آئے۔ ان کی پہلی بیوی اور اولاد دربدر ہوگئے۔ اب ملائیشیا ایک امیر ملک بن چکا ہے، لیکن ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں اور ستر کی پوری دہائی میں، میں نے ایسی کئی ملئی عورتوں اور ان کی اولاد کو ہمارے ملک کے لوگوں کو کوستے اور دربدر ہوتے دیکھا ہے۔
’’سائیں، میں بھی اسے چاہتا ہوں اور ہم دو سال سے شادی کا پروگرام بنا رہے ہیں۔‘‘ علی نے بتایا۔
’’بس تو پھر فکر ہی نہ کرو۔‘‘ میں نے علی سے اس انداز سے کہا کہ وہ سمجھا یا نہیں، لیکن اطہر ابڑو سمجھ گئے اور ہنسنے لگے۔ میں نے ایک دن قبل ان کے آفس میں لطیفہ سنایا تھا۔ اطہر کو میری اس بات پر وہ لطیفہ یاد آگیا تھا۔
میں انہی دنوں میں جاپان سے لوٹا تھا۔ اطہر اور ان کی ہائی کمشنر جنرل نسیم رانا سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے انہیں بتایا تھا کہ جاپان کی عورتیں سخت محنت کش ہیں۔ جاپان میں گھر کے کام کاج کے لیے نوکر اور ماسی رکھنے کی اجازت نہیں ہے، سارا کام بیوی کے سپرد ہوتا ہے۔ وہ بے چاریاں پورے گھر کا کام کرتی ہیں اور اس کے ساتھ ملازمت بھی کرتی ہیں۔ بچوں کی دیکھ بھال بھی ان کے ذمے اور شوہر نامدار کی خدمت، مٹھی چاپی بھی ان کے فرائض میں شامل ہے۔
یورپ میں، خاص طور پر سویڈن جیسے ملک میں، میں نے دیکھا ہے کہ عورت بچے کو ضرور جنم دیتی ہے لیکن اس کے پوتڑے دھونا شوہر کے ذمے ہوتا ہے۔ گھر کا آدھا کام بھی وہ کرتا ہے اور ادھر جاپان میں ہر کام بے چاری عورت کرتی ہے۔ اس کے باوجود شوہر کی گھرکیاں بھی سنتی رہتی ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ جاپانی عورت کسی غیر (یعنی غیر جاپانی) سے شادی کر کے نجات محسوس کرتی ہے۔ خواہ غیر جاپانی شوہر اس کے ساتھ سچی محبت نہ کرتا ہو، لیکن جاپان کا سٹیزن نہ ہونے کے سبب وہ اپنی بیوی کی عزت کرنے پر مجبور ہوتا ہے، کیونکہ وہ اسی کی وجہ سے جاپان میں ٹکا ہوا ہے۔ نہ صرف ایشیائی ملکوں کے کنگلے اور بے روزگار، جاپانی عورتوں سے شادی کرنے کے شوقین ہیں، بلکہ یورپ اور امریکا کے وہ کام چور، کاہل اور سست لوگ بھی جو اپنے ملک میں کوئی کام نہیں کرتے یا انہیں ملازمت نہیں ملتی اور ایسے افراد بھی جن سے محنت مزدوری جیسا کام نہیں ہوتا، وہ بھی جاپان آکر کسی جاپانی عورت سے شادی کرنے کو ہر مسئلے کا حل اور ہر مرض کا علاج سمجھتے ہیں۔ ایسے افراد تمام بوجھ بیوی پر لاد دیتے ہیں، پھر جاپانی عورت نوکری کر کے گھر بھی چلاتی ہے اور شوہر کے اخراجات بھی پورے کرتی ہے۔ ستم ظریقی یہ کہ ایسے شوہر کی ڈانٹ ڈپٹ بھی خندہ پیشانی سے سنتی ہے۔
اطہر نے مجھ سے ایک مشترکہ شناسا کے بارے میں دریافت کیا تھا جو روزگار کی خاطر جاپان روانہ ہوا تھا۔ میں نے اطہر کو بتایا۔ ’’مجھے وہ صاحب ایک دن اپنی جاپانی بیوی کے ساتھ ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور میں مل گئے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا کررہا ہے؟‘‘
اس نے قریب کھڑی ہوئی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’میں نے اس سے شادی کر لی ہے۔‘‘
’’میں آپ سے روزی روزگار کے بارے میں پوچھ رہا ہوں کہ کہاں ملازمت وغیرہ کررہے ہیں۔‘‘
میں نے ذرا تفصیل سے پوچھا تو وہ قدرے تیز لہجے میں بولا۔ ’’یار بتایا تو ہے کہ میں نے اس سے شادی کر لی ہے۔‘‘
’’اس کی یہ بات سن کر میں سارا معاملہ سمجھ گیا۔‘‘ میں نے اطہر کو بتایا۔ ’’میں نے سوچا کہ اب یہ کاہل آدمی کوئی کام، یعنی ملازمت وغیرہ نہیں کرے گا۔ سب کچھ اس کی بیوی کرے گی۔ اس صورت میں جاپانی حکومت بھی اسے اپنے ملک سے نہیں نکال سکتی۔ آخر انہیں اپنی لڑکی کے ’’سہاگ‘‘ کا خیال تو رکھنا پڑے گا نا!‘‘ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post