چہ باید کرد؟

0

مسعود ابدالی

آسیہ مسیح کیس کے عدالتی فیصلے کے بعد سارا ملک انتشار کا شکار ہے۔ اگر کہیں بندوق کے زور پر سڑکیں کھول بھی دی گئی ہیں تو دلوں کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی۔ میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے 1974ء کی تحریک ختم نبوت اور بھٹو صاحب کے خلاف 1977ء کی تحریک دیکھی ہے۔ خوش قسمتی سے اس وقت سوشل میڈیا کی شکل میں آگ لگانے کی اتنی زیادہ سہولت میسر نہیں تھی، لیکن اس وقت بھی سینہ گزٹ کے ذریعے مؤثر پیغام رسانی ہوتی تھی۔ ان تحریکوں کے دوران بھی حکومت کو ان کے نادان دوستوں نے گمراہ کیا اور اب بھی ’’مولوی کو کچل دو، تباہ کردو‘‘ اور ’’ریاستی رٹ (Writ) کی بحالی کے لئے آہنی ہاتھ استعمال کرو‘‘ کامشورہ دیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی قرآن و حدیث کا بھی اپنے مقصد کے مطابق استعمال جاری ہے۔ برداشت کے کلچر کے فروغ کے لئے جاوید غامدی کی ویڈیوز سنائی جا رہی ہیں۔ بعض ’’نصیحتوں‘‘ سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ توہین رسالت پر شریعت میں کوئی سزا ہے ہی نہیں، بلکہ خدا اپنے نبیؐ کی توہین کا بدلہ خود لے لے گا۔ اب یہ کون بتائے کہ تاریخ کے پہلے شاتم رسول کعب بن اشرف کو سرکارؐ کی زندگی ہی میں جہنم واصل کیا گیا۔
برصغیر کے مسلمان چند دہائیوں سے نہیں، کئی صدیوں سے اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں انتہائی جذباتی اور حساس ہیں۔ ترکی کی تحریک خلافت پر ہزاروں مسلمان قربان ہوگئے۔ ’’بولیں اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دیدو‘‘ ہندوستانی خواتین اپنے بچوں کو لوری میں سنایا کرتی تھیں۔ اسرائیل مخالف جذبات پاکستان میں فلسطین سے بھی زیادہ شدید ہیں۔ اس پر لبرل طبقے کی کڑھن پر ہمیں ہمدردی ہے، لیکن پاس کر یا برداشت کر کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ یہ طعنہ بھی دیا جا رہا ہے کہ عشق مصطفیؐ کے دعویدار نماز بھی نہیں پڑھتے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر کا مسلمان رسول مہربانؐ کی ہدایات کے مطابق زندگی نہیں گزارتا، لیکن آپؐ کے نام پر مرنے کو تیار ہے۔ میرے خیال میں تو یہ بھی خدا کی بڑی رحمت ہی ہے کہ اس نے ہمارے سینوں کو عشق مصطفیؐ سے سرشار کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
صاحبو! جتنا کچھ میں نے دیکھا ہے، اس کے مطابق طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں، خاص طور سے اس حساس مسئلے پر۔ یقیناً اس میں کوئی مماثلت نہیں، لیکن مسلم نوجوان کی اس مایوسی کو نظر انداز تو نہیں کیا جا سکتا کہ آسیہ کیلئے سارا یورپ، امریکہ، کلیسا، پاپائے روم اور امریکہ فکرمند تھا، لیکن ڈاکٹر عافیہ کے لئے پاکستانی رہنمائوں نے ایک بیان تک جاری نہیں کیا۔ زرداری و مشرف صدر بش سے ملے، نواز شریف صاحب کو اوباما نے شرف ملاقات بخشا۔ عمران خان نے امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کی، لیکن عافیہ کے بارے میں کوئی بات کرنے کی ہمت تک نہ ہوئی۔ نوجوان یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور ان کی مایوسی انہیں آہستہ آہستہ انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہی ہے۔
برداشت کے لیکچر اور جلتے ٹائروں کی تصویریں دکھا کر ان کے انداز فکر کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے پاس بھی ان کی لٹی ہوئی برمی بہنوں کی تصویریں موجود ہیں۔ غزہ کی بے گور و کفن لاشیں اور افغانستان و وزیرستاں میں ڈرون سے زندہ جلائے جانے والے ننھے حفاظ کی راکھ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔
ریاستی قوت کے استعمال نے نہ غزہ کے لوگوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا اور نہ پھانسیاں بنگلہ دیش میں دیوانوں کو میدان سے باہر رکھ سکیں۔ لاکھوں ہندوستانی فوج کشمیریوں کا دماغ درست کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اب کیا کرنا چاہئے؟ فواد چودھری جیسوں کے بجائے بات چیت کے لئے اسد قیصر، ڈاکٹر عارف علوی، شاہ محمود قریشی جیسے متحمل مزاج لوگوں کو آگے لانے کی ضروت ہے۔ حکومت فیصلے پر سپریم کورٹ میں نظرِ ثانی کی درخواست دائر کرے۔ وفاقی شرعی عدالت کے جج اور اسلامی نظریاتی کونسل کے اسکالرز کو عدالت کی معاونت کے لئے تعینات کیا جائے۔ غیر سیاسی علمائے کرام جیسے مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کو بھی معاونت کیلئے بلایا جا سکتا ہے۔
یہ علماء، اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ اور وفاقی وزیر مذہبی امور اس مسئلے پر عوام کو اعتماد میں لیں۔ عمران خان دھمکی اور سخت لہجہ ترک کر کے نرم و گداز لہجے میں قوم سے خطاب کریں اور توہینِ رسولؐ سے دل گرفتہ سوگواروں کی دلجوئی و دلداری فرمائیں۔ مدنی ریاست کا حاکم دھمکی نہیں دیتا، بلکہ حلقہ یاراں میں ریشم سے زیادہ نرم اور نوجوانوں پر باپ کی طرح شفیق و مہربان ہوتا ہے۔ اس کی ساری سختی دشمنوں کے لئے ہے۔ یہاں یہ عالم کہ عافیہ کے معاملے میں زبان پر تابعداری کے تالے پڑے ہیں اور اپنے عوام کو بدترین انجام سے ڈرایا جا رہا ہے۔
سیکولر میڈیا بار بار یہ کہہ رہا کہ ’’اس مسئلے پر فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔‘‘ یہ انتہائی شرانگیز بات ہے۔ فوج سب کی ہے، جس کا نعرہ ہی ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ سجیلے جوانوں کو بچوں کے خلاف صف آرا کرنے والے کسی اور کے ہوں نہ ہو فوج کے بدترین دشمن ہیں۔ تمام سیاستدانوں کو شکایت ہے کہ فوج انہیں آزادی سے کام نہیں کرنے دیتی اور شاید اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک دشمن عناصر فوج کو مذہبی طبقے سے بھڑا کر دونوں ’’کانٹوں‘‘ سے ایک ساتھ جان چھڑا لینا چاہتے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More