’’اب کیاکریں، بیٹا ہمارا جانا تو بہت ضروری ہے، پیچھے گھر اکیلا ہے، پڑوسیوں سے درخواست کر رکھی تھی ذرا خیال رکھنا، وہ بیچارے ہمارے گھر میں سونے لگے تو موقع دیکھ کر کوئی ان کی گاڑی سے بیٹری چوری کر گیا۔‘‘ آنٹی کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی، لیکن سیلانی کیا کوئی بندہ بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا، صورتحال ہی ایسی ہو گئی تھی کہ سڑکوں پر جگہ جگہ مشتعل لوگ دھرنے دیئے بیٹھے تھے، ایک شہر سے دوسرے شہر جانے والی بسیں اپنے اپنے اڈوں پر کھڑی تھیں، ریل گاڑیوں کا کوئی حال نہیں تھا، ایسے میں آنٹی کیسے بہاولپور جاتیں اور انہیں جانے بھی کیسے دیا جاتا، آنٹی سیلانی کی امی یعنی خوشدامن ہیں، انکل واپڈا میں سپرنٹنڈنٹ انجینئر تھے، ان کی ملازمت کا بڑا عرصہ تربیلا ڈیم پر گزرا، وہ ملک میں ڈیم سیفٹی کے گنے چنے ماہرین میں سے ہیں، صوم و صلوٰۃ کے پابند انکل نے ساری زندگی صرف تنخواہ پر گزارہ کیا، اسی وجہ سے ایک سینئر پوسٹ سے ریٹائر ہونے کے باوجود وہ اسلام آباد، لاہور میں کوٹھی بنگلہ نہیں بنا سکے، ریٹائرمنٹ کے بعد جو جمع پونجی ملی، اس سے استخارہ کیا اور بہاولپور میں ایک متوسط طبقے کی کالونی میں گھر خرید لیا اور اب وہیں اللہ اللہ کر رہے ہیں۔
انہیں سیلانی کا اسلام آباد منتقل ہونے کو علم ہوا تو بیٹی اور نواسی نواسوں سے ملنے چلے آئے، یہاں کچھ دن رہنے کے بعد واپسی کا ارادہ کیا۔ سیلانی کا برادر نسبتی ساتھ تھا، اس نے واپسی کے لئے راولپنڈی ریلوے اسٹیشن سے جعفر ایکسپریس کے ٹکٹ لے لئے۔ رخت سفر بھی باندھ لیا گیا، لیکن اسی روز آسیہ بی بی کیس کے فیصلے نے صورتحال یکسر تبدیل کر دی۔ اسلام آباد میں بلیو ایریا سے شیث خان کا فون آیا: بابا! ہمیں چھٹی دے دی ہے، میٹرو نہیں چل رہی، آپ مجھے لینے آجائیں یا آن لائن ٹیکسی بک کرکے بھیج دیں۔ سیلانی نے ایک ٹیکسی بک کرکے شیث خان کو لینے بھیج دی اور دروازے پر ٹہلنے لگا، اسلام آباد میں امن و امان کی صورتحال کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، اس طرح کی صورتحال ہو تو مظاہرین سب سے پہلے آبپارہ یا ڈی چوک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فیصلے سے ناراض مذہبی جماعتوں کے کارکنان نے فوری آبپارہ کا رخ کیا، پی ٹی آئی اور تحریک لبیک کے دھرنوں کے ڈسے اسلام آباد کے باسی ایسی صورتحال میں رسک نہیں لیتے، اسکول کالجز فوراً ہی بند کر دیئے جاتے ہیں، پھر اس کے بعد دفاتر کی باری ہوتی ہے۔
خدا خدا کے شیث خان خیر سے واپس آگیا، لیکن اب مسئلہ انکل اور آنٹی کی روانگی کا تھا، ان کے یکم نومبر کے ٹکٹ ہو چکے تھے اور حالات بتا رہے تھے کہ جانا بے وقوفی ہو گا۔ سیلانی نے بزرگوں کو سمجھایا کہ ٹکٹ کینسل کرا دیں، اگر مظاہرین کہیں بھی ریل کی پٹری پر آکر بیٹھ گئے تو ساری ریل گاڑیاں رک جائیں گی اور خدا جانے کب تک رکی رہیں، آپ بوگی میں قید ہوکر رہ جائیں گے۔ بزرگوں کو یہ بات سمجھ آگئی۔
سیلانی کے برادر نسبتی نے جا کر ٹکٹ واپس کرا دیئے اور بھلا ہی کیا۔ اس کے بعد ریل گاڑیوں کے آنے کا پتہ نہ جانے کی خبر اور ہوتی بھی تو کیا کرلیتے؟ اسلام آباد سے راولپنڈی کا ریلوے اسٹیشن بمشکل آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہے، مگر فیض آباد اور پشاور موڑ سمیت جگہ جگہ دھرنوں کی وجہ سے وہاں پہنچنا ممکن نہ تھا۔ اب دونوں پریشان ہیں کہ پیچھے ان کے گھر میں بھی چور نہ کود جائیں۔
’’آنٹی! آپ دعا کریں، اس کے سوا اس وقت اور کچھ ہو بھی نہیں سکتا۔‘‘ سیلانی نے انہیں تسلی دلاسہ دیا، اسی وقت کراچی سے دھرنوں کی خبریں آنے لگیں، کراچی میں تیس سے زائد مقامات پر مشتعل افراد دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں، کئی مقامات پر پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئی ہیں، نیو کراچی میں دو نوجوانوں کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات نے اس فضا میں جلتی پر تیل کا کام کر دیا۔ وزیر اعظم کے سخت الفاظ نے گویا آگ پر پیٹرول چھڑک دیا۔ اسلام آباد میں صورتحال کی سنگینی کا اتنا احساس نہیں ہوتا، لیکن ٹیلی ویژن کا چوکھٹا بتا رہا تھا کہ وزیر اعظم کی اس تقریر کا الٹا ہی اثر ہوا ہے۔
سیلانی پریشان تھا، اسے کراچی میں ہم پیشہ یاروں دوستوں کی بھی فکر ہونے لگی، جہاں حالات خراب ہوتے ہیں اور لوگ بھاگ رہے ہوتے ہیں، انہیں وہاں بھاگ کر پہنچنا ہوتا ہے۔ سیلانی کو فیض اللہ خان نے بتایا کہ نمائش چورنگی پر میڈیا والوں کی ’’مہمان نوازی‘‘ ہو چکی ہے، مظاہرین ٹیلی ویژن اسکرین پر بلیک آؤٹ کا بدلہ ہاتھ لگنے والے صحافیوں سے لیا جا رہا ہے، جو ہاتھ چڑھ رہا ہے، اس کی عزت افزائی کی جا رہی ہے، ٹیلی ویژن پر نیوز چینلز برائے نام کوریج دے رہے تھے اور اس سے مظاہرین اور مشتعل ہو رہے تھے۔ سیل فون سروس کی بندش کے سبب سیلانی کے پاس باخبر رہنے کا واحد ذریعہ انٹرنیٹ سے جڑا سوشل میڈیا تھا۔ سیلانی نے اپنا لیپ ٹاپ لیا اور سوشل میڈیا سے جڑگیا، یہاں وہی مناظر دیکھنے کو ملے، جو اس طرح کی صورتحال میں یہاں ہوتے ہیں۔ گالم گلوچ، جذباتیت، غیر مدلل گفتگو بتا رہی تھی کہ صورتحال بارود کا ڈھیر بنی ہوئی ہے اور پھر اس کے سامنے تحریک لبیک کے ایک سینئر راہنما پیر افضل قادری کے خطاب کا ویڈیو کلپ آگیا۔
سیلانی نے اسےسنا، پھر سنا اور پھر سنا، اسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک سنجیدہ مزاج بزرگ یوں بھی بات کر سکتے ہیں۔ پیر صاحب فوج میں مسلح بغاوت کی بات کر رہے تھے۔ وہ کھلے لفطوں میں کہہ رہے تھے کہ آرمی چیف کے خلاف بغاوت ہو جانی چاہئے… سیلانی یااللہ رحم کہہ کر آگے بڑھا تو ایک نوجوان کی تصویر سامنے آگئی، جس نے بڑا ہی خطرناک پینا فلیکس بینر پکڑ رکھا تھا۔ بینر پر صاٖ ف صاف تین جج صاحبان کو واجب القتل لکھا ہوا تھا، ساتھ ہی مشورہ دیا جا رہا تھا کہ جس کا بھی ہاتھ لگے، ثواب دارین حاصل کر لے… اب اسے کیا کہا جائے کیا نام دیا جائے؟ سیلانی کبھی قانون کا طالب علم نہیں رہا اور نہ ہی اس نے کبھی کورٹ رپورٹنگ کی ہے، بلکہ وہ ہمیشہ کورٹ کچہریوں سے دور بھاگتا رہا ہے، اس لئے وہ آسیہ مسیح کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں، لیکن اس طرح کا ردعمل کہاں سے سرکار دو عالمؐ کی تعلیمات میں شامل ہے؟
سیلانی آگے بڑھا اور اب اس کے سامنے شیخوپورہ بتی چوک کا منظر آگیا، پندرہ سولہ برس کا بچہ گدھا گاڑی پر کیلے لئے روزی روزگار کیلئے نکل رہا ہے، چوک پر سرکار دو عالمؐ کی حرمت پر مر مٹنے والے امتی ہاتھوں میں ڈنڈے سوٹے لئے کھڑے ہیں، لڑکا ان کے درمیان سے گدھا گاڑی گزارنے کی کوشش کرتا ہے اور مشتعل ہجوم سامنے آجاتا ہے، وہ گدھا گاڑی کو گھیر لیتے ہیں، ایک کا ہاتھ بڑھتا ہے اور کیلوں کا ایک گھچا اٹھا لیتا ہے، لڑکا ابھی اس پر لجا کر کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہی ہے کہ دوسرا لپک کر ایک اور گھچا اٹھا لیتا ہے۔ یہ دیکھ کر ’’عشاق‘‘ دن بھر کی توانائی جمع کرنے کے لئے گدھا گاڑی پر ٹوٹ پڑتے ہیں، جس کے ہاتھ جتنے کیلے لگتے ہیں، وہ اٹھاتا جاتا ہے، لڑکا گھبرا کر گدھا دوڑانے کی کوشش کرتا ہے اور کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ گدھا ہجوم سے نکل جاتا ہے، لیکن خالی گاڑی لے کر… کیلوں کا صفایا ہو چکا ہوتا ہے۔
یہ ایک اور منظر سیلانی کے سامنے ہے، یہ رات کا وقت ہے، مشتعل نوجوان ہاتھ میں موٹے موٹے ڈنڈے لئے کھڑے ہیں، سڑک پر رکاوٹوں کی وجہ سے گاڑیوں کا تیز رفتاری سے گزرنا ممکن نہیں، گاڑی والے جیسے ہی وہاں سے گزرتے ہیں، اس ہٹے کٹے نوجوان کا ہاتھ اٹھتا ہے اور کار کی ونڈ اسکرین پر ڈنڈا برسا دیتا ہے، اس کے پیچھے دوسری کار کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جاتا ہے اور تیسری اور چوتھی کے ساتھ بھی۔ گاڑیاں ایک ایک کرکے گزر رہی ہوتی ہیں اور وہ ’’گلو بٹ‘‘ کسی روبوٹ کی طرح ہر گاڑی پر ڈنڈا برساتا چلا جاتا ہے… یقینی طور پر ان کار والوں میں سے کوئی بھی آسیہ کا عزیز تو کیا، اس کا کسی عزیز کا دور پار کا واقف کار بھی نہیں ہوگا، نہ ہی وہ فیصلہ سنانے والے ججوں میں سے کسی کے سگے سوتیلے ہوں گے، ان بیچاروں کو تو شاید ان ججوں کے نام بھی معلوم نہ ہوں، ان کا قصور بس اتنا تھا کہ وہ اس سڑک پر اس ڈنڈے بردار نوجوان کے سامنے آگئے، جس نے یہ دیکھے بنا کہ کار کی فرنٹ سیٹ پر کوئی عورت گود میں بچہ لئے بیٹھی ہے یا کوئی بوڑھی بیمار ڈاکٹر کے پاس سے آرہی ہے، اس نے رسول اکرمؐ سے عشق کا ’’اظہار‘‘ کرنا شروع کر دیا۔
سوشل میڈیا اس احتجاج کے اس طرح درجنوں کلپس سے بھرا ہوا ہے۔ گھیراؤ جلاؤ، لوٹ مار اور مار پیٹ کے یہ واقعات اس ہستی کے نام پر ہوئے، جس کا نام لیتے ہوئے انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگا لئے جاتے ہیں، سب ہی کسی فرقے، مسلک کے چکر میں پڑے بغیر انہیں اپنا راہنما، نجات دہندہ مانتے ہیں، ان کی تعلیمات کو حق سچ مانتے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ صرف زبانی جمع خرچ کے لئے…محسن انسانیتؐ کا سچا امتی اور عاشق دوسرووں کے لیے باعث رحمت ہوتا ہے، زحمت نہیں۔
سیلانی کو نہیں علم کے ’’عشاق‘‘ نے کتنی گاڑیاں جلائی ہیں، کتنوں کے شیشے توڑے ہیں، کتنوں کے سر پھاڑے ہیں اور کتنی دکانوں پر از خود فاتحہ پڑھ کر سامان آپس میں تقسیم کر لیا ہے، بخدا اگر یہ احتجاج رسول اکرمؐ کے ماننے اور چاہنے والوں کا نہ ہوتا تو اتنا افسوس اور دکھ ہر گز نہ ہوتا، لیکن یہ احتجاج تو حرمت رسولؐ کے لئے تھا، رحمت للعالمینؐ کے نام پر تھا، اس عالی مرتبتؐ کے نام پر تھا جو امت کی فکر میں رو رو کر آنکھیں سرخ کر لیتے تھے، جنہیں دنیا سے پردہ فرماتے ہوئے بھی اپنی امت کی فکر تھی۔ یہ سب کرتے ہوئے ان کے ہاتھ کیوں نہیں کانپے، گالیاں دیتے ہوئے زبان کیوں نہیں لڑکھرائی، کسی کو مارنے کو لپکنے کے لئے قدم کیوں نہیں رکے… سیلانی پھر کہہ رہا ہے فیصلے سے اختلاف ہے، احتجاج کرنا ہے تو ضرور کیجئے، یہ آپ کا جمہوری وقانونی حق ہے جسے استعمال کرتے ہوئے سڑکیں بھر دیجئے، چوک چوراہوں پر دھرنا دے کر بیٹھ جایئے، لیکن اس طرح کہ لگے کہ عاشقان مصطفیؐ بیٹھے ہیں، محمد رسول اللہؐ کے چاہنے والے احتجاج کر رہے ہیں، ایک جاہل لٹھ مار گلوبٹ اور عاشق مصطفیؐ میں کیا کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے؟ ذرا سوچئے گا؟؟؟ سیلانی یہ سوچتے ہوئے لیپ ٹاپ جلتی بلتی گاڑیوں کو افسردگی کے ساتھ دیکھنے لگا اور دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
Next Post