حضرت صفدانؑ کے مزار پر مشرکانہ افعال کی سخت ممانعت ہے

0

حضرت صفدانؑ کا مزار اگرچہ گائوں سے الگ تھلگ ہے، لیکن اتنا دور نہیں کہ گائوں والوں کو یہاں آنے میں کوئی دقت ہو۔ یہاں پیدل چند منٹوں میں پہنچا جا سکتا ہے۔ موضع ریحان کی آبادی چند ہزار لوگوں پر مشتمل دکھائی دے رہی تھی اور گھر بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے لیکن تعداد میں کم تھے۔ نذر عباس نے مزار کے حوالے سے جاری گفتگو کے دوران دعویٰ کیا کہ ’’حضرت صفدانؑ کی زیارت کے حوالے سے گائوں میں ایک واقعہ بہت شہرت رکھتا ہے۔ موضع ریحان کا ایک شخص جو ذات کا ارائیں تھا، اسے صاحب مزار کی زیارت نصیب ہوئی۔ یہ واقعہ اس دور کا ہے جس وقت زمیندار ہل چلانے کیلئے سحری میں اٹھ کر اپنے بیلوں کا جوڑا لے کر زمینوں پر جاتے اور ہل چلانا شروع کر دیتے تھے۔ وہ بھی بیل لے کر پنجالی اٹھائے زمینوں کی جانب نکل کھڑا ہوا۔ یہاں مزار کے سامنے جو قبرستان ہے اس کے سامنے گرائونڈ کے بعد گائوں کے دو کنویں تھے۔ جب وہ بیل لے کر ان میں سے ایک کنویں کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ایک اجنبی شخص جس نے سفید لباس زیب تن کیا ہوا ہے، کنویں پر وضو بنا رہا ہے۔ لیکن جو خاص بات تھوڑی دیر بعد اس نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ رہٹ، جو بیل جوت کر چلائی جاتی ہے وہ خودبخود چل رہی تھی اور پانی نکل رہا تھا۔ یہ صورتحال دیکھ کر اس شخص کی جیسے جان ہی نکل گئی۔ وضو کرنے والا شخص جیسے ہی اٹھا تو ان کا غیر معمولی قد کاٹھ دیکھ کر اس شخص کے پسینے چھوٹ گئے۔ وہ سفید ریش بزرگ جب اس شخص کے پاس سے گزرنے لگے تو اسے کہنے لگے کہ دھیان رہے کسی سے ہمارے بارے میں بات نہ کرنا، بہت فائدہ پائو گے۔ یہ کہہ کر وہ بزرگ مزار کی جانب چلے گئے اور وہاں جاکر غائب ہوگئے۔ وہ شخص اس قدر بدحواس ہوا کہ بیل وغیرہ چھوڑ کر گھر بھاگ کھڑا ہوا۔ گھر پہنچا تو اسے تیز بخار نے آلیا، اور وہ دو تین روز ہوش و حواس سے بیگانہ بخار میں پھنکتا رہا۔ جب ہوش آیا تو گھر والوں اور رشتہ داروں نے پوچھا تمہیں اس روز کیا حادثہ پیش آیا کہ تم واپس آگئے اور آتے ہی بے ہوش ہوگئے، تو اس بندے سے غلطی ہوئی، اس نے صاحب مزار کے بارے میں تمام تفصیل بتا دی۔ بعض بزرگوں نے اس شخص کی سرزنش کی کہ جب سرکار نے بتانے سے منع کیا تھا تو کیوں اس بات کو عیاں کردیا۔ بہرحال اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ بعد میں وہ بہت پچھتایا، کیونکہ اسے یہاں سے فیض پانے والے بزرگوں نے بتایا کہ اگر یہ بات تم کسی سے نہ کرتے تو تم پر حضرت صفدانؑ کا بہت کرم ہوتا‘‘۔
صاحب مزار کی کرامات کی گونج ہمیں بھگووال کلاں سے ملنا شروع ہوگئی۔ چنانچہ ان باتوں کی تصدیق کیلئے جب نذر عباس سے پوچھا تو اس کا دعویٰ تھا ’’مزار کے اوپر ایک بہت گھنا درخت تھا۔ یہاں جلاپور کے ایک ٹھیکیدار کو درختوں کی کٹائی کا ٹھیکہ ملا۔ بہت نامور ٹھیکیدار تھا۔ میں اس کا نام بھول گیا ہوں۔ یہاں صاحبِ مزار کی اجازت کے بغیر کوئی درخت نہیںکاٹ سکتا، اسی لیے مزارکے متولی ہر کام کی باقاعدہ اجازت لیتے ہیں‘‘۔ یہ اجازت کیسے ملتی ہے، کیا کوئی عمل کیا جاتا ہے؟ تو اس پر اس کا کہنا تھا ’’متولی بزرگوںکو اشارہ ملتا تھا۔ یہ اشارہ خواب میں بھی مل جاتا اور جاگتے میں بھی کوئی ایسا اشارہ ملتا جو انہیں یہ وضاحت کردیتا کہ کام کرنا ہے یا نہیں۔ خیر آپؑ کی اجازت سے باقی تمام درخت تو کاٹ لیے گئے لیکن وہ بڑا درخت جو مزار کے ساتھ جڑا ہوا تھا، اس خوف سے کٹنے سے رہ گیا کہ اگر اسے کسی جانب سے بھی کاٹا جاتا وہ مزار کے اوپر ہی آکر گرتا۔ درخت کے اوپر چڑھنے کی ویسے ہی کسی کو جرأت نہ تھی کہ مزار سے اونچا ہونا بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے۔ کافی دنوں تک سوچ بچار ہوتی رہی اور درخت کی کٹائی موخر ہوتی رہی۔ آخر متولیوں نے صاحبِ مزار سے دعا اور درخواست کی کہ اس حوالے سے رہنمائی کی جائے کہ آیا درخت کاٹا جائے یا رہنے دیا جائے۔ صاحب مزار نے کاٹنے کا اشارہ دے دیا اور واضح طور پر بتایا گیا کہ بے فکر ہوکر درخت کاٹ لیں، مزار پر نہیں آئے گا۔ اب صورت یہ تھی کہ درخت کو جس جانب سے بھی کاٹا جاتا، گرنا اس نے مزار پر ہی تھا۔ اللہ کا نام لے کر درخت کو کاٹنا شروع کیا گیا۔ جیسے ہی درخت کٹا، خدا کی قدرت ہے کہ درخت مزار کی جانب جھکائو کے باوجود مخالف سمت جاگرا، اور مزار کی ایک اینٹ بھی نہ گری۔ یہ کرامت کئی لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ مجھے دس برس گزر چکے ہیں۔ آج تک میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس نے مجھے آکر کہا ہو کہ میں نے یہاں آکر اللہ سے دعا کی اور میری دعا نامنظور ہوئی ہو۔ ہر شخص کی جائز خواہش صاحبِ مزار کے توسط سے اللہ ضرور قبول کرتے ہیں۔ اس مزار کی سب سے بڑی کرامت تو یہ ہے کہ یہاں کو ئی مشرکانہ عبادت نہیں کی جاتی۔ کسی کو قبر کو سجدہ کرنے یا جھکنے کی اجازت نہیں۔ یہاں قبر کے پاس بیٹھ کر تلاوت، تسبیح اور دعا کی اجازت دی جاتی ہے۔ خواتین باقاعدہ اپنے آپ کو شرم و حیا کی حد میں رکھ کر حاضری دیتی ہیں اور فیض یاب ہوتی ہیں۔ سامنے اسکول کی جب تعمیرات شروع ہوئیں تو گرمیوں کا موسم تھا اور یہاں کام کرنے والوں کو معلوم نہ تھا کہ اس گائوں میں کوئی گھروں کی چھت پر نہیں سوتا۔ لیکن وہ لوگ جو تعمیرات کر رہے تھے گرمی کے باعث اپنی چارپائیاں ان کمروںکی چھت پر لے گئے جو تعمیر ہوچکے تھے۔ انہیں گائوں کے بعض لوگوں نے منع کیا کہ ایسا نہ کریں، کیونکہ جس شخص کو صاحبِ مزار کے بارے میں معلوم نہ ہوتا اور وہ چھت پر سو جاتا تو عموماً اس کی چارپائی اوندھی ہوجاتی تھی۔ انہوںنے اس بات کو مذاق سمجھا اور کہا کہ اب تو ہم چارپائیاں چھت پر لے آئے ہیں، ہمیں کوئی کچھ نہیں کہے گا، آپ اطمینان رکھیں۔ یہ لوگ رات میں تھکے ہارے سو گئے۔ رات کے آخری پہر ایک سفید ریش بزرگ چھت پر تشریف لائے، جنہوں نے لباس بھی سفید زیب تن کیا ہوا تھا۔ انہوں نے ان لوگوں کو آواز دے کر جگایا اور کہا کہ آپ لوگوںکو منع کیا گیا تھا کہ چھت پر چارپائیاں مت ڈالیں، پھر کیوں ڈال لیں۔ اس پر ان لوگوں نے ناک بھوں چڑھاکر کہا کہ ہم بہت بار چھتوں پر سو چکے ہیں اور ایسے بہت سے بزرگ دیکھے ہیں۔ انہیں بھی دیکھ لیںگے۔ یہ بات کہنے کی دیر تھی کہ ان بزرگوں نے انگلی کے اشارے سے ایک ایک چارپائی کو چھت سے لیٹے ہوئے لوگوں سمیت نیچے پھینکنا شروع کردیا۔ رات کے آخری پہر گائوں میں شور مچ گیا۔ لوگ اکٹھے ہوگئے۔ وہ بوکھلائے ہوئے صرف اتنا کہتے کہ ایک سفید ریش بزرگ نے ہمیں نیچے گرا دیا ہے۔ لوگوں کو سمجھ آ گئی کہ معاملہ کیا ہے۔ انہوں نے ان لوگوںسے کہا کہ آپ لوگوں کو اسی لیے منع کیا تھا۔ شکر ادا کریںکہ ان بزرگوںنے آپ کو صرف نیچے اتارا ہے، زمین میں نہیں گاڑ دیا‘‘۔
مزار کے اندر ایک کھڑی میں نمک رکھا ہوا تھا، جس کے بارے دعویٰ کیا گیا کہ یہ نمک مریضوں سمیت تمام لوگ چاٹتے ہیں۔ مریض تو شفا کی غرض سے نمک چاٹتے ہیں، جبکہ دیگر لوگ عقیدت میں چکھ لیتے ہیں ۔ مزار کے پائنتی کی جانب مزار کیلئے گلہ موجود تھا۔ خلاف معمول پیسوں کا یہ گلہ باہر نہیں تھا بلکہ پائنتی کی جانب قبر کے چبوترے میں سیمنٹ کے ساتھ گاڑ دیا گیا تھا۔ نذر عباس کا بتانا تھا کہ ’’یہاں مستقل لنگر کا انتظام تو موجود نہیں، لیکن کوئی دن خالی نہیں ہوتا جب کوئی نہ کوئی منت پوری ہونے کی خوشی میں یہاں دیگیں نہ لاتا ہو۔ عرس کے موقع پر تو نہ صرف موضع ریحان بلکہ پورا علاقہ لنگر کھاتا ہے‘‘۔ مقامی لوگ اس مزار کو نہ صرف موضع ریحان کے لیے بلکہ پورے علاقے کے لیے باعث برکت گردانتے ہیں۔ قبر میں موجود ہستی کے بارے میں مختلف کتب میں یہی درج ہے کہ یہاں اللہ کے پیغمبر حضرت صفدانؑ مدفون ہیں۔ لیکن مستند تاریخی حوالے سے اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ضلع گجرات میں جتنے بھی نوگز لمبے مزارات موجود ہیں، ان سب کے بارے میں دعویٰ یہی کیا جاتا ہے کہ تمام اللہ کے نبی ہیں اور ان سب کی تصدیق کشف القبور کے ذریعے ہی کی گئی ہے۔ واللہ اعلم باالصواب۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More