ہم علی کی بات کر رہے تھے۔ اس کے لیے سب ہی لوگوں نے بتایا تھا کہ وہ سخت محنت اور جفاکش انسان ہے۔ علی نے مجھے اس وقت بھی اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دی تھی اور آخر میں وہ اصرار کرتا رہا کہ میں اس کے ہاں کم از کم کھانا کھانے کے لیے ضرور آئوں۔ لیکن ملائیشیا سے میری واپسی اگلے ہی دن کنفرم تھی۔ اس لیے میں اس سے معذرت کرتا رہا۔ بہرحال میں نے پہلے ہی ملاقات میں یہ ضرور محسوس کر لیا کہ اس شخص نے غربت کے دن دیکھے ہیں۔ وہ نامساعد حالات کا مقابلہ کرنا جانتا ہے اور اس عمر ہی میں دنیا کو سمجھنے کا تجربہ حاصل کر چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ صابر و شاکر اور پرخلوص انسان محسوس ہوا۔ اپنے ایک بہترین روزگار کے ختم ہو جانے پر بھی مایوس یا دل گرفتہ نہیں تھا، بلکہ آئندہ کے لیے اس کے مثبت اور پرعزم ارادے کے بارے میں جان کر مجھے دلی خوشی ہوئی تھی۔
ملئی عورتیں جاپانیوں کی طرح کچھ زیادہ محنت کش نہیں ہیں، لیکن ان کی طرح وفادار اور باادب ضرور ہیں۔ یہ بات دیگر ہے کہ ٹی وی پروگرام اور فلمیں دیکھ کر جاپانی اور ملئی لڑکیاں اب ایسی نہیں رہیں جیسی تیس، چالیس سال پہلے تھیں۔ آج کی نوجوان لڑکیوں کو بلند آہنگ قہقہے لگاتے اور سگریٹ کے سوٹے لگاتے ہوئے دیکھ کر مجھے بہت حیرت ہوتی ہے۔ مجھے ان کی مائیں، خالائیں اور پھوپھیاں یاد آتی ہیں جنہیں میں نے ساٹھ اور ستّر کی دہائیوں میں دیکھا تھا۔ وہ بے چاری بات کرتے ہوئے بھی شرماتی تھیں اور منہ پر ہاتھ رکھ کر پہلے اور ٹیڑھے میڑھے قدرتی Constructional نقص والے دانت چھپانے میں مصروف رہتی تھیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود آج بھی کئی ملکوں کی عورتوں سے جاپان اور ملائیشیا کی ملئی بیویاں بہتر ہیں۔
بعد میں اطہر ابڑو نے ہنستے ہوئے کہا تھا ’’اگر ہمارے دوست علی کے نصیب میں کوئی سست ملئی لڑکی ہے تو تب بھی ٹھیک ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’اس لیے کہ علی خود محنتی اور کام کرنے والا آدمی ہے۔‘‘ اطہر نے بتایا۔ ’’وہ اس لیے شادی نہیں کرنا چاہتا کہ خود آرام سے بیٹھا رہے گا اور بیوی کما کر اسے کھلائے گی۔ علی بچپن ہی سے محنت کرتا چلا آرہا ہے۔ وہ سختیوں کا عادی ہے، لہٰذا سست ملئی عورت بھی اس کے ساتھ خوش اور مطمئن زندگی گزارے گی۔‘‘
ہم ملائیشیا میں مقیم روہڑی سے تعلق رکھنے والے غلام علی سولنگی کا ذکر کر رہے تھے، جس سے پانچ چھ برس قبل کوالالمپور میں میری ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت اس کا تین سال سے جاری سائبر کیفے کا بزنس ٹھپ ہو گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا تھا کہ اس کا انٹرنیٹ کیفے نہایت بہتر انداز سے چل رہا تھا، جس سے اسے مناسب آمدنی حاصل ہو رہی تھی۔ آس پاس کے نوجوان لڑکے، لڑکیاں وہاں کثرت سے آتے تھے اور کیفے ہر وقت گاہکوں سے بھرا رہتا تھا، لیکن بدقسمتی سے ایک دن کچھ تامل انڈین آپس میں لڑ پڑے اور اس کے کیفے میں ہنگامہ سا مچ گیا، پولیس آگئی، گرفتاریاں بھی ہوئیں، اس کے نتیجے میں علی کو اپنا کیفے بند کرنا پڑا۔
میں علی سے یہ نہ پوچھ سکا کہ دوسروں کے جھگڑے میں اس کا کیفے کیوں بند کرایا گیا؟ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ علی ملائیشیا کا شہری نہیں ہے کہ کھلے عام اس ملک میں بزنس کر سکے۔ اس نے تنہا یا کسی کی شراکت میں نہایت خاموشی کے ساتھ کیفے کھولا ہو گا، اس وقت دنیا کے ملکوں میں امیگریشن کے قوانین آج کی طرح سخت نہیں تھے۔ اس حد تک کہ آج کل راہ چلتے غیر ملکی کا پاسپورٹ بھی چیک کیا جاتا ہے، جس دور میں ہم یہاں رہتے تھے تب ملائیشیا تو کیا امریکا اور جاپان میں بھی کبھی راہ چلتے غیر ملکی کا پاسپورٹ چیک نہیں کیا جاتا تھا۔ البتہ اس وقت ضرور پاسپورٹ چیک کیا جاتا تھا جب کوئی شخص کسی حادثے، واقعے میں ملوث ہو جاتا یا وہ دوا لینے کے لیے سرکاری اسپتال جاتا تھا۔
مجھے یاد ہے، وہ 1966ء کا زمانہ تھا۔ سندھ کے کسی گوٹھ سے تعلق رکھنے والے دو نوجوان ایک ہفتے کے لیے سیر و سیاحت کی غرض سے امریکا آئے تھے۔ وہ واپس جانے کے بجائے وہیں ٹھہر گئے اور ایک ہوٹل میں ڈش واشر کے طور پر کام کرنے لگے، اس طرح وہ خاصی رقم کمانے لگے۔ دو تین سال کے بعد اس ہوٹل میں کام کرنے والے سیاہ فام ملازمین کا آپس میں جھگڑا ہو گیا۔ پولیس آئی اور پکڑ دھکڑ ہوئی تو ان نوجوانوں کو بھی پولیس اسٹیشن لایا گیا۔ ان کے پاس Valid ویزا تھا ہی نہیں، اس لیے انہیں واپس پاکستان روانہ کرنے کے انتظامات کئے جانے لگے۔ اس دور میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب وزیر خارجہ تھے اور انہی ایام میں نیویارک آئے ہوئے تھے۔ وہ دونوں نوجوان بھٹو صاحب کے پاس گئے، انہوں نے پاکستانی نوجوانوں کی مدد کی۔ بھٹو صاحب نے ذاتی طور پر اس معاملے میں دلچسپی لی اور ان دونوں کو امریکا میں رہنے اور وہاں قانونی طور پر کام کرنے کی اجازت دلوائی۔
پاکستانی نوجوانوں نے خوب محنت کر کے ڈالرز کمائے اور اپنے ملک میں گھر گھاٹ اور زمینیں خریدنے کے علاوہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم بھی دلوائی۔ میرا جہاز جب بھی امریکا جاتا، میں ان سے ضرور ملتا تھا۔ کئی مرتبہ انہوں نے میرے ذریعے اپنے بچوں کو رقوم بھجوائیں۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن ان کی اولاد میں سے کچھ لوگ اپنے ملک میں اعلیٰ عہدوں پر ہیں اور کچھ افراد امریکا کے مختلف شہروں میں بزنس کرتے ہیں۔ سو علی کے کیفے کے بند ہونے کا سن کر مجھے ایسا معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ بھی کچھ اس قسم کی بدقسمتی ہوئی ہوگی۔
اس کے بعد فون اور ای میل کے ذریعے علی کا احوال معلوم ہوتا رہا۔ اس نے بتایا تھا کہ اس نے سوزوکی ٹائپ ایک وین خرید لی ہے، جس میں وہ سامان رکھ کر فروخت کرتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ سرجیکل آلات مختلف ڈاکٹروں کو اور اسپتالوں میں پہنچاتا ہے۔
’’میں یہ آلات سیالکوٹ سے منگواتا ہوں۔‘‘ علی نے بتایا تھا۔ ’’میں مغربی ملائیشیا کی گیارہ ریاستوں میں سے ہر ایک میں ایک مہینہ رہ کر اپنا سامان فروخت کرتا ہوں۔ بارہواں اور آخری مہینہ ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں گزارتا ہوں۔‘‘
’’تم مختلف ریاستوں کے مختلف شہروں میں رہتے کہاں ہو؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا تھا۔
’’سائیں! ہم ہوٹلوں میں ٹھہریں اور کھائیں گے تو بچت ایک طرف رہی اصل رقم بھی خرچ کر بیٹھیں گے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔ میں اس کی بات نہیں سمجھ سکا تھا۔
’’میں وین ہی میں سو جاتا ہوں، دن بھر کی اس قدر تھکاوٹ ہوتی ہے کہ فٹ پاتھ پر بھی لیٹ جائوں تو فوراً نیند آجائے گی۔‘‘
اکثر فون اور کبھی کبھی ای میل کے ذریعے میں اس سے شادی کے بارے میں پوچھتا تھا اور وہ جواب دیتا ’’جلد ہی ہونے والی ہے۔‘‘
’’ہمیں شادی کی دعوت ضرور دینا۔‘‘ میں کہتا اور وہ بڑے خلوص سے اقرار کرتا۔ لیکن ملائیشیا میں رہ کر میں یہ بات اچھی طرح سمجھتا تھا اور علی بھی وہاں کے کلچر سے واقف تھا کہ ملائیشیا میں خوشی یا غم کی تقریبات کو خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ جیسا کہ ہمارے ہاں انتہائی حد تک exploitation ہے۔ جس میں مذہبی پہلو کم اور قومی وقت کا زیاں زیادہ ہے۔ نوکری پیشہ لوگ شادی کی تقریب
میں شریک ہونے یا تعزیت کرنے کے لیے دو دو دن اپنے آفس سے غیر حاضر رہتے ہیں۔ ان کے آفس میں آنے والے غریب ضرورت مند ان دو دنوں میں جوتیاں گھستے رہیں، انہیں کچھ پروا نہیں ہوتی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پریکٹس کو غلط کام یا جرم تصور نہیں کیا جاتا۔ اس کے بالکل برعکس صاحب کے آفس چھوڑ کر کسی دوست کے بیٹے کی شادی یا بھانجے، بھتیجے کی رسم ختنہ کی تقریب میں شریک ہونے کو انتہائی سعادت کا کام اور سماجی خیرخواہی کا جذبہ سمجھا جاتا ہے۔
بہرحال میں اپنے ملک میں رہتے ہوئے یہی سوچتا اور دعا کرتا تھا کہ علی کی شادی جلد اس ملئی لڑکی کے ساتھ ہو جائے تاکہ وہ بے خوف ہو کر سکون سے ملائیشیا میں رہے اور اپنا کاروبار چلا سکے۔ باقی اس کی شادی میں شریک ہونے کے بارے میں علی بھی سمجھتا تھا کہ اگر ان دنوں میں، میں ملائیشیا میں موجود ہوا تو ضرور شریک ہوں گا۔ دوسری صورت میں خاص طور پر اس کی شادی کی تقریب اٹینڈ کرنے کے لیے میرے پاکستان سے ملائیشیا جانے میں علی کو تو نہیں البتہ ایئر کمپنی کو ضرور فائدہ ہو سکتا ہے، جو میرے آنے جانے کے ٹکٹ کے عوض خاصی رقم وصول کرتی۔ بہرحال میں علی سے کہتا رہا۔
’’علی! شادی کے بعد اپنی ملئی دلہن کو پاکستان گھمانے کے لیے ضرور لانا اور اسے ہمارے گھر بھی لانا۔‘‘
ایک سال ایسا اتفاق ہوا کہ مجھے مسلسل دو تین ہفتے ملک سے باہر رہنا پڑا۔ ممبئی یونیورسٹی کی جانب سے مجھے سندھی سفرنامے پر لیکچر دینے کے لیے ایک ہفتے کی دعوت دی گئی۔ اس طرح سادھو واسوانی مشن والوں نے پونے میں مدعو کیا، کیونکہ وہ دادا جشن کا 90 واں جنم دن منا رہے تھے اور ’’صوفی ازم‘‘ پر سیمینار بھی کررہے تھے۔ میں ایک ہفتہ ان کا مہمان رہا، پھر اس کے بعد میں ایران سے ہوتا ہوا کراچی پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ علی پچھلے چند دنوں سے کراچی آیا ہوا ہے، میں نے فوراً اسے فون کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ میرے گھر آرہا ہے، مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں نے بیگم کو ہدایت دی کہ وہ ناسی کنیت، بیف رڈانگ اور می گورینگ جیسی ملئی ڈشز تیار کرے۔ میں سوچتا رہا کہ وہ فی الحال سندھی یا اردو نہیں سیکھ پائی ہو گی لیکن ہم سے انگریزی یا اپنی مادری زبان ملئی میں بات کر سکتی تھی۔ دراصل ہم اس ملئی لڑکی (دلہن) کو اہم سمجھتے تھے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے ہمارے ہم وطن علی کو ملائیشیا میں رہنے اور روزگار کرنے کا موقع ملا۔ لوگ تو یورپ میں جاکر جانے کیسی کیسی لڑکیوں سے شادی کرتے تھے۔ یہ تو پھر بھی ہمارے مشرقی کلچر سے تعلق رکھتی تھی۔
ایسے میں مجھے ملائیشیا کا پہلا غیر ملکی شناسا مسٹر کریم یاد آگیا جو ملاکا بندرگاہ کا ہاربر ماسٹر تھا۔ وہ انگریز تھا اور اس کا اصلی، پیدائشی نام کچھ اور تھا لیکن اس نے ملاکا کی ایک ملئی مسلمان لڑکی سے شادی کی تھی، ظاہر ہے اس سے پہلے وہ بھی مسلمان ہوا تھا۔ اس نے اپنا اسلامی نام عبدالکریم رکھا، ہم اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post