دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم، جمعیت علمائے اسلام (س) کے امیر اور دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی میں ان کے گھر پر قاتلانہ حملہ کر کے شہید کر دیا گیا۔ حملہ آوروں نے تیز دھار والے آلات سے وار کر کے انہیں قتل کیا۔ وہ جمعہ کو نوشہرہ سے راولپنڈی پہنچ کر گھر میں آرام کر رہے تھے، جبکہ ان کے ڈرائیور اور محافظ کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ وہ گھر میں واپس آئے تو انہوں نے مولانا سمیع الحق کو خون میں لت پت دیکھا۔ انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا، لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہوگئے۔ ہفتے کو مولانا سمیع الحق کی نماز جنازہ ادا کردی گئی، جس میں ان کی مدرسے کے سابقہ اور موجودہ طلبہ، اساتذہ، اہم قومی و سیاسی اور مذہبی شخصیات نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔ انہیں دارالعلوم اکوڑہ خٹک کے احاطے میں اپنے والد شیخ الحدیث مولانا عبد الحق ؒکے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔ مولانا سمیع الحق کے سیاسی و مذہبی نظریات سے اتفاق و اختلاف سے قطع نظر، انہیں دونوں حلقوں میں عزت و احترام کا مقام حاصل تھا، وہ تقریباً سات عشروں تک درس و تدریس سے وابستہ رہے اور ہزاروں علما کے استاذ و مربی رہے، افغان طالبان کے سابق امیر ملا عمر سمیت کئی اہم رہنما براہ راست ان کے شاگرد تھے۔ ان کی وابستگی پانچ سے زائد جہادی و سیاسی تنظیموں سے رہی۔ مولانا سمیع الحق خیبرپختونخوا اسمبلی میں دو بار رکن منتخب ہوئے، جبکہ دو بار سینیٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ وہ درجنوں کتابوں کے مصنف تھے اور انہوں نے چھبیس سپاروں کی تفسیر کا کام بھی مکمل کر لیا تھا۔ مولانا سمیع الحق کا شمار ملک کی ممتاز علمی شخصیات اور بزرگ سیاستدانوں میں ہوتا تھا، اگرچہ انہوں نے سیاسی میدان میں کوئی اہم کامیابی حاصل نہیں کی، لیکن ان کی علمی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مولانا پشتون ہونے کے باجود اردو کے بہت بڑے صاحب قلم تھے۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت کے بعد ان کے مدرسے اور سیاسی و مذہبی جماعت کے رہنماؤں نے لوگوں کو پرامن رہنے کی اپیل کی۔ بدیہی طور پر یہ کسی سیاسی فرقہ وارنہ تنظیم کی کارروائی نہیں، بلکہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ دکھائی دیتا ہے۔ ان کے تین ملازمین کو گرفتار کر کے تفتیش کی جارہی ہے۔ پولیس کے مطابق حملے کا انداز ظاہر کرتا ہے کہ حملہ آوروں کا ان کے گھر آنا جانا رہتا تھا۔ مولانا پر حملے کے لیے ان کے گھر اور ایسے وقت کا انتخاب اور باآسانی اپنی کارروائی مکمل کر کے فرار ہوجانے سے قیاس کیا جارہا ہے کہ حملہ آور مولانا سمیع الحق کے معمولات سے بخوبی واقف تھے، جو گھر میں آنے جانے کی وجہ سے حتمی طور پر درست ہوتے تھے یا پھر وہ اپنی بہیمانہ واردات سے قبل پوری نگرانی اور معاملات جمع کرچکے تھے۔ مولانا سمیع الحق اپنے ہزاروں شاگردوں کی افغانستان میں موجودگی کے سبب پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان رابطے کا ایک معتبر ذریعہ تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی افواج جب تک افغانستان میں موجود ہیں، اس ملک پاکستان او خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ افغانستان کی قسمت کا فیصلہ خود افغان باشندوں کو کرنا ہے۔ کسی دوسرے ملک کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ ادھر افغان طالبان نے اسلام دشمن قوتوں کو مولانا سمیع الحق پر حملے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی شہادت پوری امت مسلمہ کے لیے ایک قابل تلانی نقصان ہے کہ وہ دنیا بھر میں موجود مسلم تنظیموں اور شخصیات سے رابطے میں رہتے تھے۔ مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق کے مطابق ان کے والد کو امریکہ کا پٹھو افغان حکومت اور مختلف طاقتوں کی جانب سے ہر وقت خطرہ لاحق رہتا تھا، لیکن انہوں نے اپنی سیکورٹی کی کبھی زیادہ پروا نہیں کی۔ سفر و حضر میں وہ اپنے دوستوں اور معتقدین کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے۔ پاکستان کے علمائے کرام نے مولانا سمیع الحق کی شہادت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اسے عالمی سازش اور امت مسلمہ کے لیے بڑا نقصان قرار دیا، جبکہ سیاسی رہنماؤں کے خیال میں مولانا سمیع الحق کو قتل کر کے وطن عزیز میں فساد پھیلانے کی سازش کی گئی ہے۔ ایک خبر کے مطابق حملہ آوروں نے مولانا سمیع الحق کو قتل کرنے سے پہلے پانی پیا تھا، جس کے خالی گلاس وہاں پائے گئے۔ ان گلاسوں پر ہاتھوں کے نشانات سے قاتلوں تک پہنچنا مشکل نہیں ہے، بشرطیکہ تحقیقاتی ادارے دلچسپی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور درجنوں علماء کے قتل کی طرح اس سانحے کو بھی سردخانے کی نذر نہ کردیں۔ ان کی شہادت کو بلاشبہ موت العالم، موت العالم قرار دیا جاسکتا ہے کہ ان کی غیر موجودگی ایک عالم میں عرصہ دراز تک محسوس کی جاتی رہے گی۔ مولانا سمیع الحق سے پہلے بھی ملک کے ممتاز علمائے کرام کو دن دیہاڑے شہید کیا جاتا رہا ہے۔ مگر بد قسمتی سے آج تک کسی کے قاتل کو پکڑ کر تختہ دار پر نہیں چڑھایا جا سکا۔ مولانا سمیع الحق شہادت کے اعلیٰ رتبے پر فائز ہو کر اپنی مراد پاگئے۔ لیکن ان کے قاتلوں کی گرفتاری حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مولانا کی شہادت کے روز اسلام آباد میں جنرل حمید گلؒ کے صاحبزادے عبد اللہ گل پر بھی حملہ کیا گیا۔ سیکورٹی اداروں نے بعض علما کو متنبہ کیا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، وہ احتیاط سے کام لیں۔ بیرونی دشمن اور اس کے مقامی کارندے ملک کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں ماموس رسالت کی تحریک زوروں پر تھی، مولانا سمیع الحق کو شہید کرکے عوام کی توجہ اس اہم وحساس ترین مسئلے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ مولانا سمیع الحق کے وزیر اعظم عمران خان سے بھی قریبی تعلقات تھے۔ اب یہ حکومت کا امتحان ہے کہ وہ مولانا کے قاتلوں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچاتی ہے یا ان کے ورثا بھی دیگر شہید علماء کےلواحقین کی طرح حصول انصاف کیلئے روز محشر کا انتظار کریں۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post